امام حسین (علیہ السلام) کو کیوں ثارالله کهتے هیں؟

سوال

امام حسین (علیہ السلام) کو کیوں ثارالله کهتے هیں؟

 

جواب

اس موضوع کے بارے میں پهلے یه کهنا هے که : یه لقب دو اماموں یعنى امام على (ع) اور امام حسین (ع) کے لئے استعمال هوا هے – هم امام حسین (ع) کى زیارت میں پڑ هتے هیں : "السلام علیک یا ثارالله وبن ثاره: [1] سلام هو آپ پر اے خون خدا اور فرزند خون خدا" –

"ثارالله " کے معنى کے بارے میں دواحتمالات پائے جاتے هین:

خونخواهى : لغت کى کتابوں میں لفظ " الثار" ، "طلب الدم" یعنى "خونخواهى " کے معنى میں آیا هے، "ثارالله " یعنى جس کا ولى دم اور خونخواه، خدا هے

قابل غور بات هے که امام حسین (ع) کى خونخواهى کى آواز یعنى " یا لثارات الحسین" توابین اور مختار کے قیام کا نعره تها -[2] اس کے علاوه یه ان فرشتوں کا نعره هے جو آپ (ع) کى قبر مبارک کے پاس امام زمانه (عج) کے ظهور تک رهیں گے، [3] اور اس کے علاوه یه نعره قیام کے وقت امام مهدى (عج) [4] اور آپ ( عج) کے شهادت طلب سا تهیوں کا هوگا - [5]

لفظ " ثارالله " کے معنى بیان کئے گئے، ا نهیں بهت سے اسلامى دانشوروں نے قبول کیا هے [6]

اس معنى کے مطابق "ثارالله" یعنى اے وه، جس کے خون کا بدله خدا سے متعلق هے اور وهى آپ (ع) کے خون کا بدله لے گا، کیونکه آپ صرف ایک خاندان سے متعلق نهیں هیں که ایک خاندان کا سرپرست آپ (ع) کےخون کا بدله لے لے اور صرف ایک قبیله سے متعلق نهیں هیں که تیرے خون کا بدله قبیله کا سردار لے لے، بلکه آپ (ع) عالم انسانیت اور هستى سے متعلق هیں، آپ عالم هستى اور بارى تعالى کى پاک ذات سے متعلق هیں، اس بنا پر آپ کے خون کا بدله اسے لینا چاهئے، اور اسى طرح آپ (ع) على بن ابیطالب کے بیٹے هیں، وه بهى راه خدا کے شهید تهے اور ان کے خون کا بدله بهى خداوند متعال کو لینا چاهئے-

خون خدا : علامه مجلسی (رح) کے کلام سے معلوم هوتا هے که " الثار" کے معنى خون اور خون خواهى هیں ، [7] ان کے کلام کى تایئد کرنے والے معنى "لسان العرب" نامى کتاب میں لفظ "الثار" کے سلسله میں آیا هے – یه لغت کى کتاب کهتى هے : "الثار الطلب بالدم، وقیل: الدم نفسه" یعنى لفظ " الثار" خون خواهى کے معنى میں هے اور کها گیا هے که خود خون کے معنى میں بهى استعمال هوا هے - [8] پس کها جاسکتا هے که حسین (ع) خون خدا هیں، لیکن کیا حقیقت میں اس معنى کو قبول کیا جاسکتا هے اور کیا خدا کا جسم هے که جس کا خون هوگا اور کیا بنیادى طور پر خدا کے بارے میں ایسا تصور کیا جاسکتا هے ؟!

جواب میں کهنا هے که : "یدالله" وغیره جیسے الفاظ، جو اسلامى ثقافت میں استعمال هوئے هیں، ایک کنائى یا مجازى تعبیر شمار هوتے هیں [9] مثال کے طور پر جب کها جاتا هے که على (ع) ید الله هیں، تو اس سے مراد یه نهیں لیا جاتا هے که خدا کا جسم هے اور انسان کے مانند هاتھ رکهتا هے اور اس کا هاتهه حضرت على (ع) هیں – بلکه اس سے مراد یه هے که على (ع) خدا کى قدرت کے مظهر هیں-

اس بنا پر "ثارالله" کے لقب کا امام حسین (ع) پر اطلاق هونا مندرجه ذیل احتمالات میں سے کوئى ایک هوسکتا هے:

1- "ثارالله" پر اضافه، ایک تشریفى اضافه هے، یعنى یه خون، شریف ترهن ذات یعنى خدا پر اضافه هوا هے، کیونکه خدا کے لئے زمین پر گرا هے اور اس لحاظ سے خدا سے تعلق رکهتا هے، جس طرح جمله "ذا ناقۃ الله" [10] " عند بیتک المحرم" [11] میں لفظ "بیت" الله اور ضمیر مخاطب پر اضافه هوا هے اور یه اضافه شرافت حاصل کرنے کے لئے هے - [12]

2- جو انسان کامل قرب فضائل کے کمال کے مدارج تک پهنچ کر[13] ، "یدالله" ، "لسان الله" اور "ثارالله" بن جاتا هے، یعنى خدا کا ها تهه بن جاتا هے که اگر خدا کسى کام کو انجام دینا چاهے، تو اس کے ها تهه سے انجام دیتا ه، خدا کی زبان بن جاتا هے که اگر خدا کوئى کلام کرنا چاهتا هے، تو اس کى زبان سے کهتا هے، اور خدا کا خون بن جاتا هے، که اگر خدا اپنے مکتب کو معاشره میں حیات بخشنا چاهتا هو تو اس کے خون سے استفاده کرتا هے- امام على (ع) اور امام حسین (ع) دونوں "ثارالله" هیں، کیونکه جو خون ان دو اماموں کا زمین پر گرا، وه دین اسلام کو نئى زندگى بخشنے کا سبب بنا هے –

بهرحال همارى دینى کتابوں میں "ثارالله"، کا لقب امام حسین (ع) کے لئے استعمال هوا هے – همارا اعتقاد هے که اگر چه اس کے پهلے معنى بهى صحیح هیں، لیکن اس کے دوسرے معنى بهى لقب " ثارالله" کے صحیح معنى هوسکتے هیں اور ان معنى کو پانے والے اهل افراد کو بعض لحاظ سے اولویت میں قرار دے سکتے هیں-

اس لحاظ سے، امام حسین (ع) خون خدا هیں، کیونکه ان کے خون نے دین اسلام کو ایک نئى حیات بخشى هے اور خدا کا نام زنده رهنے کا سبب بنى هے – حقیقت میں رفته رفته خدا کى یاد محو هورهى تهى اور اس کى عبادت، عادت میں تبدیل هورهى تهى –

اس لحاظ سےکها جاتا هے که "اسلام نبى الحدوث و حسینى البقاء" هے – اور ظاهر هے که انسان کو زنده رهنے کےلئے خون کى ضرورت هوتى هے ، اور رگوں میں خون کا جارى رهنا زندگى کى علامت هے اور جب خون رگوں میں جارى هونے سے رک جاتا هے، تو شخص کى موت آجاتى هے – بالکل اسى طرح اسلام کى رگوں میں بهى خون کے جارى رهنے کى ضرورت هوتى هے اور اسى بنا پر اگر ایک دن یه خون بدن سے جدا هوجائے تو اس بدن کى موت یقینى اور قطعى هوتى هے اور اس کے بعد باقى رهنے والا صرف ایک بے روح جسم هوتا هے -[14]

[1] کلینی، محمد بن یعقوب‏، الکافی، ج‏4، ص576. یه جمله اول رجب ، 15 رجب، اور شعبان کى زیارتوں کےعلاوه عرفه کے دن امام حسین (ع) کى زیارت میں آیا هے -

[2] مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏45، ص333؛ کرمی، علی، در سوگ امیر آزادى- گویاترین تاریخ کربلا، ص385‏.

[3] امام حسین (ع) کے لئے چار هزار فرشتے زمین پر اترے اور دیکها که امام قتل کئے گئے هیں، اس لئے حضرت (ع) کى قبر پر خاک برسر حالت میں امام زمانه (عج) کے ظهور تک موجود رهیں گے اور ان کا نعره: «یا لثارات الحسین» هے‏؛ شیخ صدوق، الأمالی، ص130، المجلس السابع و العشرون؛ مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏44، ص286.

[4] قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال، ج1، ص542؛ همچنین امام باقر(ع) فرمود: «وَ الْقَائِمُ مِنَّا إِذَا قَامَ طَلَبَ بِثَأْرِ الْحُسَیْنِ (ع‏)»؛ مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، ج‏44، ص218.

[5] مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، ج52، ص308.

[6] صاحب تفسیر نمونه کهتے هیں: "ثار" کبهى عرب لغت میں خون کے معنى میں نهیں آیا هے بلکه خون بها کےمعنى میں آیا هے (عرب میں خون "دم" پر اطلاق هوتا هے)؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج‏4، ص229.

[7] «و أنک ثار الله فی الأرض» کى شرح میں کهتے هیں: «الثأر بالهمز، الدم و طلب الدم أی أنک أهل ثار الله و الذی یطلب الله بدمه من أعدائه أو هو الطالب بدمه و دماء أهل بیته بأمر الله فی الرجعة»؛ مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، ج98، ص151.

[8] ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج4، ص97.

[9] ملاحظه هو: مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج‏4، ص229؛ قرائتى، محسن، تفسیر نور، ج‏2، ص443.

[10] هود، 64.

[11] ابراهیم، 37.

[12] «هذِهِ ناقَةُ اللَّهِ» الإضافة إلى الله تشریفیة، کإضافة مکة إلى الله یقال: «بیت الله»، و إضافة دم الحسین (ع) إلى الله، یقال: «ثار الله»؛ ملاحظه هو: حسینى شیرازى، سید محمد، تقریب القرآن إلى الأذهان، ج‏2، ص200.

[13] جو چیز انسان کو خدا کے قریب لاتى هے، وه نوافل کے مانند هے که مقربات کے معنى میں هے جسے خداوند متعال نے اپنے بندوں پر واجب نهیں کیا هے، بلکه وه قرب الهى حاصل کرنے کے لئے اسے بجا لاتے هیں-

[14] مزید آگاهى کے لئے ملاحظه هو:: ترخان، قاسم، نگرشی عرفانی، فلسفی و کلامی به: شخصیت و قیام امام حسین (ع)، ص 91- 104، انتشارات چلچراغ، طبع اول، 1388 ه ش..قابل بیان هے که تمام منابع مرکز تحقیقات کا مپوترى علوم اسلامى، نور سے متعلق هیں

Comments (0)

There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Attachments (0 / 3)
Share Your Location

آپ کے سوالات

حمایت از سایت

برای حمایت از سایت لوگوی زیر را در سایت خود درج نمایید.

آخرین ارسال سایت