کیا حضرت علی و فاطمہ زہرا (علیہما السلام) کے گھر پر عمر کے حملہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے ؟

سوال 

کیا حضرت علی و فاطمہ زہرا (علیہما السلام) کے گھر پر عمر کے حملہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے ؟


جواب 

اگر چہ بعض لوگ حریم اہل بیت پیغمبر (ص) پر آشکار ظلم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹی کے گھر پر حملہ کا واقعہ ایسا ہے جو کبھی فراموش نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کبھی تاریخ کے صفحہ سے پاک ہوسکتا ہے ۔
کیونکہ حدیث اور تاریخ کی بہت سی معتبر کتابوں میں احتیاط اور شرمندگی کے ساتھ اس افسوسناک واقعہ کی طرف اشارہ ہوا ہے جبکہ اہل بیت (علیہم السلام) پر ظلم کو بعض مورخین اور محدثین نے چھپانے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی جو کچھ صدر اسلام میں یا اس کے بعد واقع ہوا ہے اس کو چھپا نہیں سکے ۔
ان افسوسناک واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلوات اللہ علیہما) کے گھر پر آپ کی وفات کے بعد حملہ ہے جس میں خلیفہ دوم نے آگ لگائی ، لہذا خلیفہ دوم کے متعلق جو کچھ اہل سنت کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے وہ یہ ہے : « و معہ قبس من نار« ۔ عمر کے ساتھ آگ کا شعلہ بھی تھا (١) ۔
عمر نے گھر کے دروازہ کے پاس پہنچتے ہی کہا : دروازہ کو کھول دو ورنہ گھر کے ساتھ تمہیں بھی آگ میں جلا دوں گا .... اس کے بعد آگ کو دروازہ پر ڈال دیا اور اس کو جلادیا (٢) ۔
حضرت زہرا (علیہا السلام) کے استغاثہ کے باب میں ذکر ہوا ہے : عمر کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت علی (علیہ السلام) کے گھر کے پاس آیا اور دروازہ کو کھٹکھٹایا ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے لوگوں کے شور و غل کی آواز سننے کے بعد گریہ و فریاد کے ساتھ کہا ! یا رسول اللہ یہ کیسی مصیبت ہے جو آپ کے بعد ابن خطاب اور ابن قحافہ کی طرف سے ہم پر آئی ہے یہ نالہ وفریاد سن کر بہت سے لوگ وہاںسے چلے گئے ، لیکن عمر کچھ لوگوں کے ساتھ وہاں باقی رہ گیااور عمر نے قسم کھائی : خدا کی قسم یا تو بیعت کے لئے باہر آجائو ورنہ اس گھر کو تمہارے ساتھ آگ لگا دوں گا... پھر دروازہ پر آگ ڈالی اور اس کو جلا دیا (٣) ۔
ایک دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے : «قالت فاطمة (س) یا بن خطاب ؟ ا جئت لتحرق دارنا ؟ ! قال : نعم « ۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا : اے ابن خطاب ، کیا تو ہمارے گھر کو جلانے کے لئے آیا ہے ؟ ! عمر نے کہا : ہاں گھر کو جلانے کے لئے آیا ہوں (٤) ۔
سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے : جس وقت عمر ، حضرت علی و فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر کے پاس پہنچا تو حضرت فاطمہ دروازہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : دروازہ کو کھول دو، فاطمہ (س) نے فرمایا : اے عمر ہمیں رسول اللہ کا سوگ منانے دے اور ہمیں ا کیلا چھوڑ دے ، تجھے ہم سے کیا کام ہے ؟ (٥) ۔
نتیجہ
جو کچھ مسلم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے گھر پر عمر کے حملہ کے وقت حضرت زہرا (س) گھر میں موجود تھیں ، جب آپ نے عمر اور اس کے ساتھیوں کی آواز سنی تو دروازہ کو بند کردیا اور ان کو شک و گمان بھی نہیں تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اکلوتی یادگار یعنی خود جناب فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کے گھر میں ہوتے ہوئے وہ آپ کے گھر پر حملہ کرے گا ، افسوس کہ اس نے یہ جسارت اورغلطی کی اور حضرت علی و فاطمہ (علیہما السلام) کے گھر میں آگ لگائی ۔
1. تاريخ طبري ج3، ص 101؛ مصنف ابن ابي شيبه، ج 7، ص432؛ العقد الفريد، ج 4، ص 260؛ انساب الاشراف ج2، ص 268.
2. الامامه و السياسة، ج 1، ص 12.
3. الامامه و السياسة، ج 1، ص 12.
4. تاريخ ابي الغداء، ج1، ص 156.
5. کتاب سليم بن قيس، ص 864.

Comments (0)

There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Attachments (0 / 3)
Share Your Location

آپ کے سوالات

حمایت از سایت

برای حمایت از سایت لوگوی زیر را در سایت خود درج نمایید.

آخرین ارسال سایت