کیا بی بی شهر بانو سے امام حسین (علیہ السلام) کى شادی کا واقعہ صحیح هے؟
اس سوال کو وضاحت سے بیان کر کے اس کا جوب دیا جاتا ھے
سوال:اسلامى فوج کى اسارت میں قرار پائى شهر بانو نامى کسى خاتون سے امام حسین (ع) کى ازدواج (ع) کے بارے میں کئى قول پائے جاتے هیں، کیونکه بعض روایتوں میں اس خاتوں کے خلیفه دوم عمر کى خلافت میں اسیر هونا درج کیا گیا هے اور بعض روایتوں میں عثمان کى خلافت کے دوران اسیر هونا درج کیا گیا هے – اس کے علاوه اس کے اور اس کے باپ کے بارے میں متعدد نام ذکر کئے گئے هیں- ان نکات کے پیش نظر امام حسین (ع) کى بیوى اور امام سجاد کى والده کا (شهربانو نام هونا اور) ایرانى هونا مشکل هے-
جواب: یزدگرد سوم کى بیٹى (شهر بنو) سے امام حیسن (ع) کى شادى کے بارے میں مورخین کے درمیان کئى قول پائے جاتے هیں:
شیخ صدوق (رح) امام زین العابدین کى والده کے بارے میں اس حدیث کو نقل کرتے هیں: که سهل بن قاسم نوشجانى کهتے هیں: امام رضا (ع) نے خراسان میں مجه سے فرمایا : همارے اور آپ کے درمیان رشته دارى هے- میں نے کها که : یه رشته دارى کیا هے؟ امام (ع) نے فرمایا! جب عبدالله بن عامر بن کریزنے خراسان کو فتح کیا، تو اسے ایران کے بادشاه کى دوبیٹیاں ملیں، انهیں عثمان بن عفان کے پاس بهیجا – عثمان بن عفان نے ان دو میں سے ایک، امام حسن (ع) اور دوسرى امام حسین (ع) کو بخش دى- اور یه دونوں بٹیاں وضع حمل کے بعد فوت هوگیئں- امام حسین (ع) کى بیوى سے امام سجاد (ع) پیدا هوئے- امام حسین (ع) کى بیوى کى وفات کے بعد، امام حسین (ع) کى ایک کنیز نے امام سجاد (ع) کى سرپرستى سنبهالى - [1] اس روایت کے مطابق یزد گرد کى بیٹى کو عثمان کے زمانه میں مدینه لایا گیا هے، نه عمر بن خطاب کے زمانه میں-
اس روایت کے بارے میں شیخ عباس قمى یوں کهتے هیں: یه حدیث ان احادیث کے خلاف هے، جن میں یزدگرد کى بیٹى کو عمر بن خطاب کے زمانے میں مدینه لانے کى نسبت دى گئى هے اور وه حدیثیں مشهور تر اور قوى ترهیں- [2]
کلینى (رح) نے امام سجاد (ع) کى والده کى هویت کے بارے میں یه حدیث نقل کى هے که : "جب یزد گرد کى بیٹى کو عمر کے پاس لایا گیا، مدینه کى دوشیزایئں اس کے دیدار کے لئے آرهى تهیں، جب وه مسجد میں داخل هوئى، مسجد اس کے نور سے منور هوگئى- عمر نے اس پر نظر ڈالى، اس لڑکى نے اپنا چهره چهپایا اور کها: "اف بیروج بادا هرمز" (واى، هرمز کے ایام سیاه پر!) عمر نے کها: یه لڑکى مجهے برا بهلا کهتى هے اور اس کى طرف متوجه هوئے! امیرالمومنین (ع) نے عمر سے کها: تجهے اسے کسى قسم کى تکلیف پهنچانے کا حق نهیں هے، اسے اختیار دیدو که خود مسلمانوں میں سے کسى مرد کو اپنے لئے منتخب کرے اور اسے اس مرد کے غنیمت میں شمار کرنا – عمر نے اسے اختیار دیا- لڑکى آگے پڑهى اور اپنے هاته کو امام حسین (ع) کے سر پر رکه دیا- حضرت على (ع) نے اس سے فرمایا: تمهارا نام کیا هے؟ اس نے جواب میں کها: جهان شاه، حضرت نے فرمایا: بلکه شهر بانو-
اس کے بعد حسین (ع) سے فرمایا: اے ابا عبدالله! اس لڑکى سے روئے زمین کا بهترین شخص تیرے لئے متولد هوگا اور على بن حسین (ع) اس سے پیدا هوئے-
على بن حسین (ع) کو ابن الخیرتین (دو برگزید شخصیتوں کا بیٹا) کهتے تهے، کیونکه عرب کے برگزیده "اشم" تهے اور عجم کے "فارس"-[3]
سند اور متن کے لحاظ سے اس روایت پر محققین کى ایک تعداد نے تنقید کى هے، مثال کے طور پر کها گیا هے که اس کى سند میں "عمروبن شمر" نامى ایک شخص هے جو علم رجال کے علماء کى نظر میں ضعیف هے اور قابل اعتماد نهیں هے-[4]
متن کے لحاظ سے بهى اس حدیث پر متعرد اعتراضات کئے گئے هیں، مثال کے طور پر:
ب: اس زمانه میں امام حسین (ع) کا اس قسم کى کسى لڑکى سے ازدواج کرنا بهى مشکوک هے، کیونکه پهلى روایت کے مطابق اس لڑکى کا اسیر هونا فتح خراسان یعنى 22 هجرى اور عثمان کا زمانه تها جبکه دوسرى روایت کے مطابق عمربن حطاب کا زمانه تها که اگر یه معیار قرار دیا جائے تو فتح ایران کے وقت امام حسین (ع) کى عمر 10یا11 سال تهى، کیونکه ایران عمر کى خلافت کے دوسرے سال فتح هوا هے، اس بنا پر ناممکن هے که امام حسین (ع) نے اس عمر میں کوئى شادى کى هو-
ج: امام سجاد (ع) کى مادر گرامى کےشجره نسب کے بارے میں بهى قدیم تاریخى منابع اور روایتں اختلافات سے دوچار هیں، بعض مورخین، جیسے یعقوبى (وفات 284 هجرى) [5] ، محمد بن حسن قمى[6]، کلینى (وفات 329 هجرى)[7]، محمدبن حسن صفارقمى (وفات 290 هجرى)، علامه مجلسى [8]، شیخ صدوق (وفات 381 هجرى) [9] اور شیخ مفید (وفات 413 هجرى)[10]، اسے یزدگرد کى بیٹى جانتے تهے،اگر چه اس کے نام پر اتفاق نظر نهیں رکهتے تهے:
اس قول کے مقابلے میں بعض قدیم و جدید منابع اس لڑکى کے سیستانى، سندى اور یا کابلى هونے کے بارے میں ذکر کرتے هیں اور بهت سے منابع نے اس کى اسارت کى جگه کا ذکر کئے بغیر اسے صرف "ام ولد" (صاحب فرزند کنیز) کے عنوان سے یاد کیا هے- [11]
بعض مورخین نے ایران کى مشهور شخصیتوں، جیسے سبحان، سنجان، نوشجان اور شیرویه کو اس کے باپ کے عنوان سے ذکر کیا هے-
هم تنقید و تحقیق کے سلسله میں ان روایتوں پر کى گئى سند کى بحث پر بهروسه نهیں کرسکتے هیں، کیونکه ان میں کوئى بهی قول مستحکم سند نهیں رکهتا هے – اس کے علاوه اکثر تاریخى کتابیں، جیسے یعقوبى نے اپنے مطالب کو اسناد کا ذکر کئے بغیر نقل کیا هے –
اس بنا پر صرف محتوى کےلحاظ سے اس مسئله کى جانچ پڑتال کى جانى چاهئے که اس سلسله میں بهى مندرجه ذیل شبهات سے دوچار هوتے هیں:
سب سے اهم شبهه ان روایتوں میں اس کے اور اس کے باپ کے نام پر اختلاف هے که مختلف منابع اور کتابوں میں خود اس کے بارے میں گوناگون نام ذکر هوئے هیں، جیسے شهربانو، سلاخه، غزاله وغیره
اس خاتون کے اسیر هونے کى تاریخ میں اختلاف، ایک دوسرا شبهه هے که بعض مورخین نے اسے عمر کا زمانه اور بعض دوسروں نے عثمان کا زمانه ذکر کیا هے اور شیخ مفید جیسے بعض افراد نے حضرت على (ع) کى خلافت کا زمانه ذکر کیا هے [12]
تاریخ طبرى اور ابن کثیر کى الکامل حیسى تاریخى کتابوں میں بنیادى طور پر مسلمانوں کى ایرانیوں سے جنگوں کے سالوں کى ترتیب سے درج کیا هے اور یزدگرد کے مختلف شهروں میں فرار کرنےکا ذکر کیا هے، کسى بهى واقع میں اس کى اولاد کے اسیر هونے کا ذکر نهیں کیا هے- باوجودیکه یه مسئله ان جزئى حوادث کى به نسبت کافى اهم هے جن کى طرف اشاره کیا گیا هے-
مسعودى جیسے قدیم مصنفوں نے یزدگرد کى اولاد کا ذکر کرتے هوئے، اس کى چند بیٹیوں، جیسے: ادرک، شاهین اور مردآوند کا نام لیا هے که اولا: ان ناموں میں سے کوئى بهى نام امام سجاد (ع) کى والده کے لئے ذکر کئے گئے ناموں میں سے کسى ایک کے ساته هم آهنگ نهیں هے اور ثانیا: انهوں نے اپنى تحریروں میں کهیں پر ان کے اسیر هونے کى خبر ذکر نهیں کى هے- [13]
بهرحال ان قرینوں اور امام سجاد (ع) کى والده کے بارے میں موجود دوسرے نطریات اور اس طرح اس نکته کے پیش نظر که تیسرى صدى کے اواخر سے پهلے اکثر مورخین نے اسے سند یا کابل کى کنیزوں میں شمار کیا هے [14] امام سجاد (ع) کى والده کے بارے میں کوئى قطعى نظریه پیش نهیں کیا جاسکتا هے- [15]
[1] عیون اخبار الرضا، جزء دوم، ص 128، ح 6، تصحیح و تعلیق سید مهدی حسینی لاجوردی، طبع 1377 هجری، ناشر میرزا محمد رضا مهتدی، طبع اول ( )
[2] قمی، شیخ عباس، منتهی الامال، ج 2، ص 30، طبع هجرت
[3] اصول کافی، ج 1، ص 467،انتشارات آخوندی،
[4] خلاصه الاقوال فی معرفه الرجال، بخش دوم، ص 241، باب 7،کلمه عمرو؛ ملاحظه هو: شهربانو همسر امام حسین.