رمضان کی لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ھے ؟

سوال

رمضان کی لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ھے ؟

 

جواب

لفظ رمضان مادہ’’ رَمَضَ‘‘ سے ہے۔ رمض کے معنی سورج کا شدت کے ساتھ ریت پر چمکنا کے ہیں۔(۱) ’’ ارض رمضا‘‘ اس زمین کو کہا جاتا ہے جو سورج کی طمازت سے انگارا بنی ہوئی ہو۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: «افرأیتم جزع احرکم من الشوکة تعبه و الرمضاء تحرقه...؛ کیا تم لوگوں نے اس وقت اپنی کمزوری اور بے تابی کا احساس کیا ہے جب تم ایسی زمین پر چل رہے ہو کہ جو سورج کی طمازت سے انگارا بنی ہوئی ہو؟ پس کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب آگ کے دو شعلوں کے درمیان ہو گے؟(۲) کہا جاتا ہے کہ رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے(۳)
رمضان اصطلاح میں قمری مہینوں میں کا نواں مہینہ ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
«شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن».(۴) اس مہینہ کو رمضان کا نام کیوں دیا گیا اس کی وجہ یوں بیان کی گئی ہے: چونکہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا اس وقت یہ مہینہ شدید گرمی کے عالم میں واقع ہوا تھا(۵)۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا: رمضان، گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے خداوند عالم اس مہینے میں اپنے بندوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اور انہیں بخش دیتا ہے اس وجہ سے اس مہینہ کا نام رمضان رکھا گیا‘‘۔(۶)
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔
اسلام کے تمام احکام اور دستورات بتدریج اور دھیرے دھیرے نازل ہوئے ہیں۔ اس بنا پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم ہجرت کے دوسرے سال دو شعبان کو نازل ہوا۔(۷)
روزوں کے واجب ہونے کی دلیل خود قرآن کریم کی آیت ہے: «یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام؛ اے صاحبان ایمان تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں پس تم میں سے جو حضر(وطن) میں ہے وہ روزے رکھے(۸)۔
روزے گزشتہ امتوں پر بھی واجب تھے۔ قرآن کریم نے صراحت سے اس بات کو بیان کیا ہے: کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم؛ تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں جیسا کہ تم میں سے پہلی امتوں پر فرض کئے تھے‘‘۔(۹)
موجودہ توریت اور انجیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصارا کے درمیان بھی روزے پائے جاتے تھے۔
بعض قومیں اس وقت روزہ رکھا کرتی تھی جن ان پر کوئی مصیبت یا بلا نازل ہوتی تھی۔ جیسا کہ کتاب قاموس میں آیا ہے:
روزہ گزشتہ تمام قوموں اور ملتوں میں پایا جاتا تھا وہ قومیں غیر متوقع غم و اندوہ کے نازل ہوتے وقت روزہ رکھتی تھیں۔
توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب موسی نے چالیس دن روزے رکھے۔ جیساکہ توریت میں ہے: جب میں طور سینا پر پہنچا کہ خدا سے صحیفے حاصل کروں تو میں چالیس دن اس پہاڑ پر رہا نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا۔(۱۰)
مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: روزے کا عبادت ہونا ایک ایسا امر ہے جو انسانی فطرت کے ساتھ سازگار ہے اور وہ قومیں جو ادیان آسمانی کے تابع نہیں تھیں جیسے مصر، یونان اور روم کی قدیم امتیں یا ہندوستان کے بت پرست وہ لوگ بھی اپنے اپنے عقائد کے مطابق روزہ رکھتے تھے اور ابھی بھی رکھتے ہیں۔ (۱۱)
حوالہ جات
1. مجمع البحرین،‌ج2، ص 223، واژه رمض.
2. بحارالانوار،‌ج8، ص 306.
3. مفردات راغب، واژه رمض.
4. بقره (2) آیه 185.
5. مجمع البحرین، ج2، ص 223 ، واژه رمض.
6. مستدرک الوسائل، ج7، ص 487 و 546.
7. محمد ابراهیم آیتی، تاریخ اسلام، ص 298.
8. بقره (2) آیه 183 تا 185.
9 . وہی حوالہ.
10 . تفسیر نمونه، ج1، ص 633، بنقل از قاموس کتاب مقدس ، ص 28 ؛ تورات، سفر تثنیه،‌فصل 9 ، شماره 9.
11. تفسیر المیزان، ج2، ص 7.

 

ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات کیا ھیں ؟

سوال

ماہ مبارک رمضان کی خصوصیات کیا ھیں ؟


جواب
اللہ کا مہینہ
- قال رسول الله‏ صلى‏ الله ‏عليه ‏و‏آله: شَعبانُ شَهري، و شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللهِ(1)؛
شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔
- قال رسول الله صلى‏ الله ‏عليه ‏و‏آله: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللهِ، و شَهرُ شَعبانَ شَهري؛ شَعبانُ المُطَهِّرُ، و رَمَضانُ المُكَفِّرُ (2)؛
رمضان کا مہینہ اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے۔ شعبان پاک کرنے والا اور رمضان گناہوں کو ڈھانپنے والا ہے۔
- قال رسول الله صلى ‏الله ‏عليه‏ و‏آله: رَمَضانُ شَهرُ اللهِ، و هُوَ رَبيعُ الفُقَراءِ (3)؛‌
رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ فقیروں کی بہار ہے۔
- الإمام عليّ عليه‏السلام: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ الله‏ِ، و شَعبانُ ‏شَهرُ رَسولِ ‏الله صلى‏الله‏عليه‏و‏آله، و رَجَبٌ شَهري(4)؛
رمضان اللہ کا مہینہ ہے شعبان پیغمبر کا اور رجب میرا مہینہ ہے۔

ضیافت الہی کا مہینہ
- قال رسول الله صلى ‏الله ‏عليه‏ و‏آله ـ في وَصفِ شَهرِ رَمَضانَ ـ : هُوَ شَهرٌ دُعيتُم فيهِ إلى ضِيافَةِ اللهِ، و جُعِلتُم فيهِ مِن أهلِ كَرامَةِ اللهِ، أنفاسُكُم فيهِ تَسبيحٌ، و نَومُكُم فيهِ عِبادَةٌ، ...(5)
پیغمبر اکرم (ص) نے ماہ رمضان کی تعریف میں فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں ضیافت الہی پر دعوت دی گئی ہے اس میں تمہاری سانسیں تسبیح اور تمہاری نیندیں عبادت ہیں۔ اس میں تمہارا عمل مقبول ہے اور تمہاری دعائیں مستجاب۔
- قال رسول الله صلى‏ الله‏ عليه ‏و‏آله: إذا كانَ يَومُ القِيامَةِ يُنادِي المُنادي: أينَ أضيافُ اللّه‏ِ؟ فَيُؤتى بِالصّائِمينَ ... فَيُحمَلونَ عَلى نُجُبٍ مِن نورٍ، و عَلى رُؤوسِهِم تاجُ الكَرامَةِ، و يُذهَبُ بِهِم إلَى الجَنَّةِ (6)؛
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جب قیامت ہو گی تو ایک منادی ندا دے گا: کہاں ہیں اللہ کے مہمان؟ پس روزے داروں کو لایا جائے گا ۔۔۔ انہیں بہترین سواریوں پر سوار کیا جائے گا اور ان کے سروں پر تاج سجایا جائے گا اور انہیں بہشت میں لے جایا جائے گا۔
- قال الامام عليّ عليه‏السلام ـ مِن خُطبَتِهِ في أوَّلِ يَومٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ ـ : أيُّهَا الصّائِمُ، تَدَبَّر أمرَكَ؛ فَإِنَّكَ في شَهرِكَ هذا ضَيفُ رَبِّكَ، اُنظُر كَيفَ تَكونُ في لَيلِكَ و نَهارِكَ؟ و كَيفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصي رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّيلِ نائِما و بِالنَّهارِ غافِلاً؛ ... (7)؛
امام علی علیہ السلام نے ماہ رمضان کے پہلے دن خطبے میں فرمایا: اے روزہ دارو! اپنے امور میں تدبر کرو، کہ تم اس مہینہ میں اللہ کے مہمان ہو دیکھو کہ تمہاری راتیں اور دن کیسے ہیں؟ اور کیسے تم اپنے اعضاء و جوارح کو اپنے پروردگار کی معصیت سے محفوظ رکھتے ہو؟ دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم رات کو سو جاو اور دن میں اس کی یاد سے غافل رہو۔ پس یہ مہینہ گزر جائے گا اور گناہوں کا بوجھ تمہاری گردنوں پر باقی رہ جائے گا۔ اور جب روزے دار اپنی جزا حاصل کریں گے تو تم سزا پانے والوں میں سے ہو گے۔ اور جب انہیں انکا مولا انعام سے نوازے گا تو تم محروم ہو جاو گے اور جب انہیں خدا کی ہمسائگی نصیب ہو گی تو تمہیں دور بھگا دیا جائےگا۔
- قال الإمام الباقر عليه‏السلام: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ رَمَضانَ، وَالصّائِمونَ فيهِ أضيافُ اللّه‏ِ و أهلُ كَرامَتِهِ، مَن دَخَلَ عَلَيهِ شَهرُ رَمَضانَ فَصامَ نَهارَهُ و قامَ وِردا مِن لَيلِهِ وَاجتَنَبَ ما حَرَّمَ الله‏ُ عَلَيهِ، دَخَلَ الجَنَّةَ بِغَيرِ حِسابٍ (8) ؛
ماہ رمضان، ماہ رمضان، اس میں روزہ دار اللہ کے مہمان اور اس کے کرم کے سزاوار ہیں۔ جس شخص پر ماہ رمضان وارد ہو اور وہ روزہ رکھے اور رات کے ایک حصے میں اللہ کی عبادت کرے نماز پڑھے اور جو کچھ اللہ نے اس پر حرام کیا ہےاس سے پرہیز کرے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو گا۔

تمام مہینوں کا سردار
- قال رسول الله صلى‏ الله ‏عليه‏ و‏آله: شَهرُ رَمَضانَ سَيِّدُ الشُّهورِ (9)؛
‌ ماہ رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے۔
- قال الإمام الرضا عليه‏السلام: إذا كانَ يَومُ القِيامَةِ زُفَّتِ الشُّهورُ إلَى الحَشرِ يَقدُمُها شَهرُ رَمَضانَ عَلَيهِ مِن كُلِّ زينَةٍ حَسَنَةٍ، فَهُوَ بَينَ الشُّهورِ يَومَئِذٍ كَالقَمَرِ بَينَ الكَواكِبِ، فَيَقولُ أهلُ الجَمعِ بَعضُهُم لِبَعضٍ: وَدِدنا لَو عَرَفنا هذِهِ الصُّوَرَ! ...(10)
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو تمام مہینوں کو محشر میں لایا جائے گا اس حال میں کہ ماہ رمضان زیورات سے آراستہ سب سے آگے ہو گا۔ اس دن ماہ رمضان بقیہ مہینوں میں ایسے ہو گا جیسے چاند باقی ستاروں کے درمیان ہے۔ پس محشر میں لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: ہم ان چہروں کو پہچاننا چاہتے تھے۔
خدا کی جانب سے ایک منادی ندا دے گا : اے مخلوق خدا! یہ مہینوں کے چہرے ہیں کہ جو اس وقت سے اللہ کی بارگاہ میں موجود تھے جب سے زمین و آسمان خلق ہوئے کہ ان کی تعداد بارہ ہے اور انکا سردار ماہ رمضان ہے۔ میں نے اسے ظاہر کیا ہے تاکہ اس کی برتری کو دیگر مہینوں پر دکھلا سکوں تاکہ وہ مردوں اور عورتوں میں سے جو میرے بندے ہیں انکی شفاعت کرے اور میں اس کی شفاعت قبول کروں ۔

شب قدر ماہ رمضان میں ہے
- قال رسول الله صلى ‏الله ‏عليه ‏و‏آله: قَد جاءَكُم شَهرُ رَمَضانَ؛ شَهرٌ مُبارَكٌ ... فيهِ لَيلَةُ القَدرِ خَيرٌ مِن ألفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَها فَقَد حُرِمَ(11)؛
‌ ماہ رمضان تمہارے پاس آ چکا ہے جو برکتوں والا مہینہ ہے۔۔۔ کہ جس میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ محروم وہ شخص ہے جو اس رات محروم رہ جائے۔
- سُئِلَ رَسولُ الله‏ِ صلى‏ الله ‏عليه ‏و‏آله عَن لَيلَةِ القَدرِ، فَقالَ: «هِيَ في كُلِّ رَمَضانَ»(12) ؛
‌ پیغمبر خدا (ص) سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شب قدر ہر رمضان میں پائی جاتی ہے۔
- مسند ابن حنبل عن أبي مرثد: سَأَلتُ أباذَرٍّ قُلتُ: كُنتَ سَأَلتَ رَسولَ الله صلى‏ الله ‏عليه‏ و‏آله عَن لَيلَةِ القَدرِ؟ قالَ: أنَا كُنتُ أسأَلَ النّاسِ عَنها يعني أشدّ الناس مسألةً عنها. قالَ: قُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، أخبِرني عَن لَيلَةِ القَدرِ أ في رَمَضانَ هِيَ أو في غَيرِهِ؟ قالَ: «بَل هِيَ في رَمَضانَ.»
قالَ: قُلتُ: تَكونُ مَعَ الأَنبِياءِ ما كانوا فَإِذا قُبِضوا رُفِعَت، أم هِيَ إلى يَومِ القِيامَةِ؟ قالَ: «بَل هِيَ إلى يَومِ القِيامَةِ.»(13)
میں نے ابوذر سے پوچھا: کیا آپ نے رسول خدا(ص) سے شب قدر کےبارے میں معلوم کیا ہے؟
کہا: میں سب سے زیادہ اس کے سلسلے میں پوچھتا رہا ہوں۔
( جناب ابوذر نے کہا) میں نے رسول خدا(ص) سے پوچھا: اے رسول خدا(ص)! مجھےشب قدر کےبارےمیں آگاہ کریں کہ کیا شب قدر رمضان میں ہے یا کسی اور مہینےمیں؟
فرمایا: ماہ رمضان میں۔
میں نے کہا: کیا جب تک پیغمبر زندہ ہیں تب تک ہے یا انکی رحلت کے بعد بھی شب قدر قیامت تک ماہ رمضان میں رہے گی؟
فرمایا: شب قدر قیامت تک باقی رہے گی۔

حوالہ جات
1- فضائل الأشهر الثلاثة: 44/20، الأمالي للصدوق:71/38 ، تحف العقول: 419 ، الإقبال: 3 / 293، روضة الواعظين:441، دعائم الإسلام: 1/283، بحارالأنوار: 97/68/4 .
2- كنز العمّال: 8 / 466 / 23685 نقلاً عن ابن عساكر و ج 12 / 323 / 35216 نقلاً عن الديلمي وكلاهما عن عائشة .
3- ثواب الأعمال: 84 / 5، النوادر للأشعري: 17/2 ، فضائل الأشهر الثلاثة: 58/37، الجعفريّات: 58، النوادر للراوندي: 134/ ، بحارالأنوار: 97/75/26.
4- المقنعة: 373، مسارّ الشيعة: 56، مصباح المتهجّد: 797 .
5- فضائل الأشهر الثلاثة: 77/61، الأمالي للصدوق: 84/4، عيون أخبار الرضا عليه‏السلام:1/295/53، الإقبال:1/26، بحارالأنوار: 96/356/25.
6- مستدرك الوسائل: 4/22/4079 نقلاً عن تفسير أبي الفتوح الرازي.
7- فضائل الأشهر الثلاثة: 108 / 101 .
8- فضائل الأشهر الثلاثة: 123/130.
9- شرح الأخبار : 1/ 223 / 207، الفضائل: 125، بحارالأنوار:40/54/89؛ فضائل الأوقات للبيهقي: 89/205، شُعَب الإيمان:3/314/3637 و ص 355/3755 ، كنز العمّال: 8/482/23734 .
10- فضائل الأشهر الثلاثة: 110/102 عن عبدالله‏ بن عامر عن أبيه.
11- تهذيب الأحكام: 4/152/422، الأمالي للمفيد: 112/2 و301 /1 ، الأمالي للطوسي: 74 / 108و ص 149/ 246 ، بحارالأنوار: 97/17/34؛ سنن النسائي: 4/129، مسند ابن حنبل: 3/8/7151 و ص 412/9502.
12- سنن أبي داود: 2/54/1387، السنن الكبرى: 4/506/8526 .
13- مسند ابن حنبل: 8/117/ 21555، المستدرك على الصحيحين:1/603/1596و ج2/578/3960، السنن الكبرى: 4/505/ 8525 .

حاسد کیا کرتا ہے؟

سوال

حاسد کیا کرتا ہے؟


جواب

 وہ پہلے مرحلے میں مدّمقابل جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب نہیں بن پاتا تو پھر مدّمقابل کو گرانے کی سعی کرتا ہے، جب اس میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو پھر مدّ مقابل کو مختلف حیلوں اور مفید مشوروں کے ساتھ میدان سے ہٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اس تگ و دو میں بھی ناکام ہوجائے تو پھر مدّمقابل کی غیبت اور کردار کشی پر اتر آتا ہے۔ جب کھل کر غیبت اور کردار کشی بھی نہ کرسکے تو پھر اشارے کنائے میں ہی غیبت پر گزارہ کرتا ہے۔ اگر اس سے بھی اس کے حسد کی آگ نہ ٹھنڈی ہو تو پھر وہ اس انداز سے تعریف کرتا ہے کہ جس سے اس کے ارد گرد کے لوگ غیبت کرنے میں اس کی ہمنوائی کریں۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی حاسد خود اپنی ہی نظروں میں شکست خوردہ اور مرا ہوا ہوتا ہے۔ حاسد کو زندہ سمجھنا خود زندگی کے ساتھ مذاق ہے۔ جس طرح ایک شخص کو دوسرے سے حسد ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک قوم اور ایک تنظیم کو بھی بعض اوقات دوسری سے حسد ہو جاتا ہے۔ قومی اور تنظیمی حاسد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام افراد سے اور تنظیمیں ممبران سے تشکیل پاتی ہیں۔ اقوام میں افراد کی شمولیّت کسی حد تک اجباری اور کسی حد تک اختیاری ہوتی ہے، جبکہ تنظیموں میں شمولیّت فقط اختیاری ہوتی ہے۔ اقوام میں اجباری شمولیّت کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بھی یہودی خاندان میں متولد ہوتا ہے، وہ بہر صورت یہودی قوم کا فرد ہی متصور ہوگا۔ اب اقوام میں اختیاری شمولیت کی مثال یہ ہے کہ ایک یہودی کلمہ طیّبہ پڑھ کر اپنی سابقہ یہودی قومیّت سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اختیاری طور پر ملت اسلامیہ کا فرد بن جاتا ہے۔ سیاسی نظریات کے مطابق تنظیمی ممبر شپ کے لئے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر شخص جس خاندان میں پیدا ہو وہ موروثی طور پر اپنے ابا و اجداد کی پارٹی کاممبر بھی ہو۔ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے اسے فارم پُر کرنے پڑتے ہیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

جس طرح ایک وقت میں ایک قوم کے اندر مختلف تنظیمیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایک تنظیم کے اندر بھی مختلف اقوام کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوام کی تشکیل رنگ، نسل، مذہب، علاقے، خاندان یا دین پر ہوتی ہے، اسی طرح تنظیموں کا انحصار بھی مذکورہ عناصر میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔ عام طور پر اقوام اپنی مشکلات کے حل کے لئے تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح افراد زندگی اور موت کے عمل سے گزرتے ہیں، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کو بھی زندگی اور موت سے واسطہ پڑتا ہے۔ قرآن مجید کی نگاہ میں بہت سارے لوگ بظاہر کھانے پینے، حرکت اور افزائش نسل کرنے کے باوجود مردہ ہیں، اسی طرح بہت سارے لوگ بظاہر جن کا کھانا پینا، حرکت کرنا اور افزائش نسل کا سلسلہ متوقف ہو جاتا ہے وہ زندہ ہیں اور قرآن مجید انہیں شہید کے لقب سے یاد کرتا ہے۔

افراد کی مانند اقوام اور تنظیمیں بھی دو طرح کی ہیں، کچھ زندہ ہیں اور کچھ مردہ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جس طرح افراد کی ظاہری حرکت زندگی کا معیار نہیں ہے، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کی ظاہری حرکت اور فعالیت بھی زندگی کی غماض نہیں ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حرکت کی سمت کیا ہے، چونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زندگی کی آغوش میں بیٹھا ہوا ہو، لیکن موت کی طرف حرکت کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص موت کے سائے میں جی رہا ہو، لیکن زندگی کی طرف گامزن ہو۔ عبداللہ ابن ابیّ جیسے بہت سارے لوگ بظاہر پیغمبر اسلام (ص) کے پرچمِ حیات کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کی سمت ہلاکت و بدبختی تھی۔ اسی طرح سلمان و ابوذر جیسے لوگ ظہورِ اسلام سے پہلے ہلاکت و بد بختی کے سائے میں جی رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کا رخ حقیقی زندگی کی طرف تھا۔ بظاہر دونوں طرف حرکت تھی، اسی حرکت نے عبداللہ ابن ابیّ کو ہلاکت تک پہنچا دیا اور اسی حرکت نے سلمان (ر) و ابوذر (ر) کو حیاتِ ابدی سے ہمکنار کیا۔

اسی طرح تنظیموں کی زندگی میں بھی فقط ظاہری حرکت اور فعالیّت معیار نہیں ہے، بلکہ حرکت کی سمت کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دور کی بات ہے کہ طالبان نے بہت زیادہ فعالیت کی، لیکن اس کے باوجود طالبان مرگئے، اس لئے کہ ان کی حرکت کی سمت غلط تھی، لیکن حزب اللہ سربلند ہے، اس لئے کہ حزب اللہ کی حرکت کی سمت نظریات کی طرف ہے۔ طالبان کے نظریات سعودی عرب اور امریکہ سے درآمد شدہ تھے، چنانچہ ریال و ڈالر کی دانش کے ساتھ ہی ان کی نظریاتی موت بھی واقع ہوگئی، چونکہ ظلم و تشدد اور دھونس دھاندلی سے تنظیموں کو کبھی بھی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب طالبان کی محبت کا دم بھرنے والے دھڑوں کو یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ حاسد کی مانند مردہ تنظیمیں بھی اپنے ہی ممبران کی نظروں میں مری ہوئی ہوتی ہیں۔ جہاں پر تنظیموں کی نظریاتی موت واقع ہوجائے، وہاں پر ان کے تابوت اٹھانے سے وہ زندہ نہیں ہو جایا کرتیں۔

ہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اور تنظیموں کی اساس ان کے عقائد اور نظریات پر قائم ہے۔ اسلامی تنظیموں کی زندگی میں ان کے نظریات اس قطب نما کی مانند ہیں، جس سے سمت معلوم کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملی تنظیم کی سمت مشخص نہ ہو اور حرکت نظر آئے تو اس کے ناخداوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی سمت درست معیّن کریں اور پھر حرکت کریں۔ بصورتِ دیگر وہ جتنی حرکت کرتے جائیں گے، اتنے ہی منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔ جو طاقت تنظیم کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہے اور تنظیم کو نظریات کی سمت پر کاربند رکھتی ہے، وہ اس کے تربیّت یافتہ ممبران ہوتے ہیں۔ اگر کسی تنظیم میں تربیّت کا عمل رک جائے یا کھوکھلا ہوجائے تو وہ بھنور میں گھومنے والی اس کشتی کی مانند ہوتی ہے، جو جتنی تیزی سے حرکت کرتی ہے، اتنی ہی ہلاکت سے قریب ہوتی جاتی ہے۔ کسی بھی تنظیم کے ممبران کس حد تک تربیّت یافتہ ہیں، اس کا اندازہ ان کی جلوتوں سے یعنی نعروں اور سیمیناروں سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا پتہ ان کی خلوتوں سے چلتا ہے۔ جس تنظیم کے ممبران کی خلوتیں نظریات سے عاری ہوں، ان کی جلوتیں بھی عارضی اور کھوکھلی ہوتی ہیں۔

جب کسی تنظیم کے پرچم کو تھامنے والے افراد کی خلوتوں میں رشک کی جگہ حسد، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی، تعریف کی جگہ تمسخر، تکمیل کی جگہ تنقید، تدبر کی جگہ تمسخر، خلوص کی جگہ ریا اور محنت کی جگہ ہنسی مذاق لے لے تو اس تنظیم کی فعالیّت اور حرکت کو زندگی کی علامت سمجھنا یہ خود زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ ہماری ملّی تنظیموں کو ہر موڑ پر اس حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہیے کہ نظریات پر سمجھوتے کا نتیجہ تنظیموں کی موت کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ تنظیمیں نعروں سے نہیں بلکہ نظریات سے زندہ رہا کرتی ہیں اور نظریات کی پاسداری صرف اور صرف تربیّت شدہ ممبران ہی کرتے ہیں۔ جہاں پر تنظیموں میں ممبران کی نظریاتی تربیّت کا عمل رک جائے، وہاں پر تنظیموں کو مرنے اور کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر تربیّت یافتہ افراد تنظیموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور پھندے کی مانند تنظیموں کے گلے میں اٹک جاتے ہیں

کیا توبہ کے لیۓ شرائط ہیں ؟

سوال

کیا توبہ کے لیۓ شرائط ہیں ؟

 

جواب

اب يہ بھي ممکن ہے کہ يہ سوال آپ کے ذہن ميں آۓ کہ اگر توبہ کي کوئي بھي شرط نہيں ہے تو کيسے قرآن ميں توبہ کي شرائط کے متعلق آيات موجود ہيں - مثال کے طور پر سورہ نساء کي آيت نمبر 17 اور 18 ميں خدا تعالي کي طرف سے توبہ کي قبوليّت کے ليۓ چار شرائط کا ذکر ہوا ہے -
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوَءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُوْلَـئِكَ يَتُوبُ اللّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً ( سورہ نساء آيت نمبر 17 )
ترجمہ : اللہ کے ذمے صرف ان لوگوں کي توبہ (قبول کرنا) ہے جو ناداني ميں گناہ کا ارتکاب کربيٹھتے ہيںپھر جلد ہي توبہ کر ليتے ہيں، اللہ ايسے لوگوں کي توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے -
اسي طرح دوسري آيت ميں ارشاد باري تعالي ہے کہ
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ( سورہ نساء آيت نمبر 18 )
ترجمہ : اور ايسے لوگوں کي توبہ (حقيقت ميں توبہ ہي) نہيں جو برے کاموں کا ارتکاب کرتے رہتے ہيں يہاں تک کہ ان ميں سے کسي کي موت کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ کہ اٹھتا ہے :اب ميںنے توبہ کي اور نہ ہي ان لوگوں کي (توبہ قبول ہے ) جو مرتے دم تک کافر رہتے ہيں، ايسے لوگوں کے ليے ہم نے دردناک عذاب تيار کر رکھا ہے -
ان آيات ميں ظاہري طور پر توبہ کي قبوليت کے ليۓ چار شرائط کا ذکر ہوا ہے -
1- گناہ جہالت اور ناداني کي وجہ سے ہو
2- توبہ ميں دير نہ کرے
3- موت سے پہلے توبہ کرے
4- توبہ موت کے بعد نہ ہو
اس سوال کا جواب مختصر طور پر يہ ہے کہ ظاہري طور پر ان دو آيات سے جو بات سامنے آتي ہے ، اس پر مزيد بحث کي ضرورت ہے اور ان آيات کي تفسير اور وضاحت کي ضرورت ہے - ان آيات ميں کچھ اساسي نکات کي طرف اشارہ کيا گيا ہے جن کي وضاحت کي جاني چاہيۓ -
ان آيات سے ظاہري طور پر ہم جو مطلب اخذ کرتے ہيں وہ ظاہري طور پر دوسري متعدد آيات سے مطابقت نہيں رکھتا ہے اور وہ گناہوں کا سامنا کرنے کے معاملے ميں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار عليھم السلام کي سيرت سے بھي مطابقت نہيں رکھتا ہے - ہمارا عظيم دين ، دين اسلام اس بات کا مدعي ہے کہ توبہ کے معاملے ميں کوئي بند گلي موجود نہيں ہے - توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے ہيں -

Publish modules to the "offcanvas" position.