رزق کے بارے میں کونسی روایت موجود ہے؟

سوال
سلام علیکم رزق کے بارے میں کونسی روایت موجود ہے؟ رزق حلال حاصل کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ افزائش رزق کے لئے کونسی دعائیں موجود ہیں؟ اور کونسے کام رزق کم ہونے کا سبب بنتے ہیں؟


 جواب
سوال میں پیش کئے گئے موضوع پر بحث کرنے سے پہلے، ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ لوگوں کے عام تصور کے خلاف کہ"رزق" کو صرف اس کے مادی مصادیق میں استعمال کرتے ہیں، روایتوں میں لفظ "رزق" وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور خدا وند متعال کی تمام نعمتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خواہ وہ نعمت مادی ہو یا معنوی۔ اس لحاظ سے تندرستی، آرام، حج جیسے واجبات بجالانے کی توفیق،  اچھے دوست وغیرہ، تمام رزق شمار ہوتے ہیں۔
البتہ حدیث کی کتابوں میں بہت سی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جو صرف مادی رزق سے متعلق ہیں، ہم ان میں سے بعض کی طرف مثال کے طور پر ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ رزق حاصل کرنے کی کوشش: امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: " جو شخص کم رزق کے پیچھے ہو، یہ کام اس کو زیادہ رزق ملنے کا سبب بن جاتا ہے اور اگر کوئی کم رزق کے پیچھے نہ جائے وہ زیادہ رزق کو بھی کھودے گا"۔[1]
2۔ وسعت رزق کے لئے نماز و دعا: کتاب کافی میں اس سلسلہ میں ایک عنوان آیا ہے[2] اور اس میں وسعت رزق کے لئے کئی دعائیں ذکر کی گئی ہیں، من جملہ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے زید شجام سے فرمایا: رزق زیادہ ہونے کے لئے واجب نمازوں کے سجدوں میں یہ دعا پڑھیں: "يَا خَيْرَ الْمَسْئُولِينَ وَ يَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ ارْزُقْنِي وَ ارْزُقْ عِيَالِي مِنْ فَضْلِكَ الْوَاسِعِ فَإِنَّكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم" اے سائلوں کے بہترین پناہ اور اے بہترین بخشش دینے والے، مجھے اور میرے اہل وعیال کو اپنے وسیع فضل سے رزق عطا کر کہ تو صاحب فضل عظیم ہے"[3]
اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک شخص، چند دن آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا اور ایک مدت کے بعد جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: ہمارے پاس آنے میں کونسی چیز تیرے لئے رکاوٹ بنی تھی؟
اس نے عرض کی: بیماری، فقر اور محتاجی۔ آنحضرت (ص) نے اس سے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ ایک ایسی دعا سکھادوں، جس کی وجہ سے خداوند متعال تجھ سے فقر اور بیماری کو دور کرے گا؟ اس نے جواب میں عرض کی: اے رسول خدا(ص) رحمت و دورود خدا آپ پر ہو، جی ہاں ( وہ دعا مجھے سکھائیے) پس رسول خدا (ص) نے فرمایا: کہدو: لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَ لَا وَلَداً وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيُّ مِنْ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا.[4]
راوی کہتا ہے: زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پھر سے حاضر ہوا اور عرض کی: اے رسول خدا(ص)! خداوند متعال نے (اس دعا کے واسطے) مجھ سے بیماری اور فقر کو دور کیا۔
3۔ طلوعین ( اذان صبح سے سورج چڑھنے تک) کے درمیان بیدار رہنا: محمد بن مسلم نے امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) سے نماز صبح کے بعد سونے کے بارے میں سوال کیا۔ امام (ع) نے جواب میں فرمایا:" اس دوران رزق تقسیم کیا جاتا ہے، مجھے پسند نہیں ہے کوئی اس وقت سوجائے۔"
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:" صبح کے وقت سونا منحوس ہے انسان کے چہرہ کو زرد اور بدصورت بنا دیتا ہے۔ اور اس قسم کی نیند، بدبخت انسانوں کی نید ہے اور خداوند متعال طلوع فجر سے آفتاب چڑھنے تک کے زمانہ میں ااپنے بندوں کے درمیاں رزق تقسیم کرتا ہے۔[5]
4۔ نماز شب پڑھنا: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک شخص نے امام (ع) کی خدمت میں تنگ دستی کے بارے میں شکوہ کرنے کے لئے زبان کھولی اور حد سے زیادہ گلہ شکوے کئے اور نزدیک تھا کہ بھوک کے بارے میں بھی شکوہ کرے۔ امام (ع) نے اس سے فرمایا: اے مرد! کیا تم نماز شب پڑھتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں۔ امام (ع) نے اس کے ساتھی کی طرف رخ کرکے فرمایا: جو شخص تصور کرتا ہے کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ بیشک خداوند متعال نے نمازشب کے ذریعہ دن کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے۔[6]"
رزق کو وسعت بخشنے والے اعمال، بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں پر ان ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ بعض اسباب جو رزق میں کمی کا سبب بن جاتے ہیں، خلاصہ کے طور پر ان کی طرف بھی ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ نیت: البتہ، نیت، دونوں صورتوں(رزق کے کم و زیادہ ہونے میں) موثر ہے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:" مرد کا رزق اس کی نیت کے برابر ہے۔"[7] اس کلام سے مراد یہ ہے کہ، رزق کے کم و زیاد ہوںے میں انسان کی نیت موثر ہے۔ پس اگر اس کی نیت اور قصد یہ ہو کہ اس کے خاندان اور دوسروں کو بھی رزق میں وسعت دے تو خداوند متعال اس کے رزق میں اضافہ کرتا ہے اور اگر اس کی نیت ان کو تنگ دست رکھنا ہو تو خداوند متعال اسے بھی تنگ دستی میں قرار دے گا۔
2۔ بعض کام انجام دینا بھی، روایتوں میں رزق میں کمی ہونے کا عنوان بیان کیا گیا ہے۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:" رزق کو کم کرنے والے امور یہ ہی‏: مکڑی کا جال گھر میں رکھنا، حمام ( باتھ روم) میں حاجت بشری کرنا، جنابت کی حالت میں خورد ونوشت، درخت گزکی لکڑی سے خلال کرنا، کھڑی حالت میں بالوں میں کنگی کرنا، کوڑاکرکٹ کو گھر میں جمع کرنا، جھوٹی قسم کھانا، زنا، نماز مغرب وعشا کے درمیان سونا، سورج طلوع ہونے سے پہلے سونا، جھوٹ بولنے کی عادت ڈالنا، لہو لعب کی آواز سننا، رات کو کسی حاجتمند کو مسترد[نا امید] کرنا، خرچ و مخارج میں اعتدال کی رعایت نہ کرنا، صلہ ارحام کو منقطع کرنا۔[8]
رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:" بیس خصلتیں رزق میں کمی واقع ہونے کا سبب بنتی ہیں، من جملہ: قضائے حاجت کے لئے بسترہ سے عریان حالت میں بلند ہونا، کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہ دھونا، روٹی کے ٹکڑوں کی بے احترامی کرنا، لہسن اور پیاز کے چھلکوں کو نذرآتش کرنا، گھر کے دروازہ کی چوکھٹ پر بیٹھنا، رات کو جارو دینا، گھر کو لباس کے ایک حصہ سے صاف کرنا، آستین سے سرو صورت خشک کرنا، آلودہ برتن کو رات کے وقت نہ دھونا، پانی کے برتن کا ڈھکنا کھلا رکھنا، مسجد سے نکلنے میں جلدی کرنا، صبح صویرے بازار جانا اور رات ہونے تک بازار میں رہنا، فقراء سے روٹی خریدنا،اولاد پر نفرین کرنا، پہنے ہوئے لباس کی سلائی کرنا، پھونک مارکے دیا بجھانا۔[9]
اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال: 3783( سائٹ 4007) عنوان: " مقدر بودن روزی" اور سوال نمبر 13119 عنوان:" دعا بر کسب ثروت"، کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

[1] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 5، ص 311، ح 29، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365ش.
[2] ۔ملاحظہ ہو: الکافی، ج 2، ص 550، بَابُ الدُّعَاءِ لِلرِّزْقِ۔
[3]  ایضاً۔ ص 551، ح4.
[4] ایضاً، ص 551، ح3.
[5] ۔ طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار، ج 1، ص 350، ح 2، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1390ق.
[6] ۔ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 474، ح 1371، انتشارات جامعۀ مدرسین، قم، 1413 ق.
[7]۔ آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص 399، انتشارات دفتر تبلیغات، قم، 1366ش.
[8] ۔ طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الأنوار، ج1، ص 128، کتابخانۀ حیدریه، نجف، 1385ق.
[9] ۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 73، ص 314 ح1، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ق.


چھاپیے   ای میل

Comments (0)

There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Attachments (0 / 3)
Share Your Location