روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے۔ روزہ معدہ کو مختلف بیماریوں سے سالم اورمحفوظ رکھنے میں فوق العادہ تاثیر رکھتا ہے۔ روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرتا ہے ۔ پیغمبر اکرم (ص) اور روزہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: المعدۃ بیت کل داء۔ والحمئۃ راس کل دواء(۱)۔ معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہیزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے ) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے۔ اور نیز آپ نے فرمایا:صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا۔ روزہ رکھو تا کہ صحت یاب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ۔ اس لیے سفر اور تجارتی مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں لیجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: لکل شی ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصیام (۲) ہر چیز کے لیے ایک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔ حضرت علی (ع) اور روزہ امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات ، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم ، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم ، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما فيذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.(3( جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و سکون ملتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے۔ اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں۔ ۱: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے۔ حضرت علی (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق(۴) روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے۔ چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ ۲: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے۔ امام علی (ع) نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں: صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب(۵) روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔ امام رضا (ع) اور روزہ جب امام رضا (ع) سے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کی سختی کا مزہ چکھیں۔ اور اس کے بعد روزہ قیامت کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا: واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع یوم القیامۃ و عطشہ۔ اپنے روزہ کی بھوک اور پیاس کے ذریعے قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔ یہ یاد دہانی انسان کو قیامت کے لیے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے لیے مزید جد و جہد کرنے پر تیار کرتی ہے۔(۷) امام رضا (ع) دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پیاس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے۔ اور اسی طرح سے روزہ کے ذریعے انسان میں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شریعت ا سلامی اور احکام خدا وندی نے شہوات کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے روزہ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانے اور بری صفات اور رذیلہ خصلتوں کو دور کرنے کے لیے روزہ کو واجب کیا ہے۔ البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ روزہ یعنی " کف النفس" نفس کو بچانا۔جیسا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: روزہ ہر انسان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ بری بات منہ سے نہ نکالے اور بیہودہ کام انجام نہ دے۔ پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شیطان کے فریبوں سے نجات دلاتاہے۔ اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گویا اس نے صرف بھوک اور پیا س کوبرداشت کیا ہے اور یہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔ حوالہ جات
1- اركان اسلام ، ص 108 . 2- كافي ، ج 4 ، ص 62. 3- نهج البلاغه ، خطبه 192. 4- نهج البلاغه ، حكمت 252. 5- نهج البلاغه ، خطبه 110. 6- وسائل الشيعه ، ج 7 ، ص 3. 7- وہی ، ص 4. 8- علل الشرايع ، شيخ صدوق ، باب الصوم