سوال
رمضان کی لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ھے ؟
جواب
لفظ رمضان مادہ’’ رَمَضَ‘‘ سے ہے۔ رمض کے معنی سورج کا شدت کے ساتھ ریت پر چمکنا کے ہیں۔(۱) ’’ ارض رمضا‘‘ اس زمین کو کہا جاتا ہے جو سورج کی طمازت سے انگارا بنی ہوئی ہو۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: «افرأیتم جزع احرکم من الشوکة تعبه و الرمضاء تحرقه...؛ کیا تم لوگوں نے اس وقت اپنی کمزوری اور بے تابی کا احساس کیا ہے جب تم ایسی زمین پر چل رہے ہو کہ جو سورج کی طمازت سے انگارا بنی ہوئی ہو؟ پس کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب آگ کے دو شعلوں کے درمیان ہو گے؟(۲) کہا جاتا ہے کہ رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے(۳)
رمضان اصطلاح میں قمری مہینوں میں کا نواں مہینہ ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:
«شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن».(۴) اس مہینہ کو رمضان کا نام کیوں دیا گیا اس کی وجہ یوں بیان کی گئی ہے: چونکہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا اس وقت یہ مہینہ شدید گرمی کے عالم میں واقع ہوا تھا(۵)۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا: رمضان، گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے خداوند عالم اس مہینے میں اپنے بندوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے اور انہیں بخش دیتا ہے اس وجہ سے اس مہینہ کا نام رمضان رکھا گیا‘‘۔(۶)
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔
اسلام کے تمام احکام اور دستورات بتدریج اور دھیرے دھیرے نازل ہوئے ہیں۔ اس بنا پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم ہجرت کے دوسرے سال دو شعبان کو نازل ہوا۔(۷)
روزوں کے واجب ہونے کی دلیل خود قرآن کریم کی آیت ہے: «یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام؛ اے صاحبان ایمان تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں پس تم میں سے جو حضر(وطن) میں ہے وہ روزے رکھے(۸)۔
روزے گزشتہ امتوں پر بھی واجب تھے۔ قرآن کریم نے صراحت سے اس بات کو بیان کیا ہے: کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم؛ تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں جیسا کہ تم میں سے پہلی امتوں پر فرض کئے تھے‘‘۔(۹)
موجودہ توریت اور انجیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصارا کے درمیان بھی روزے پائے جاتے تھے۔
بعض قومیں اس وقت روزہ رکھا کرتی تھی جن ان پر کوئی مصیبت یا بلا نازل ہوتی تھی۔ جیسا کہ کتاب قاموس میں آیا ہے:
روزہ گزشتہ تمام قوموں اور ملتوں میں پایا جاتا تھا وہ قومیں غیر متوقع غم و اندوہ کے نازل ہوتے وقت روزہ رکھتی تھیں۔
توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب موسی نے چالیس دن روزے رکھے۔ جیساکہ توریت میں ہے: جب میں طور سینا پر پہنچا کہ خدا سے صحیفے حاصل کروں تو میں چالیس دن اس پہاڑ پر رہا نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا۔(۱۰)
مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: روزے کا عبادت ہونا ایک ایسا امر ہے جو انسانی فطرت کے ساتھ سازگار ہے اور وہ قومیں جو ادیان آسمانی کے تابع نہیں تھیں جیسے مصر، یونان اور روم کی قدیم امتیں یا ہندوستان کے بت پرست وہ لوگ بھی اپنے اپنے عقائد کے مطابق روزہ رکھتے تھے اور ابھی بھی رکھتے ہیں۔ (۱۱)
حوالہ جات
1. مجمع البحرین،ج2، ص 223، واژه رمض.
2. بحارالانوار،ج8، ص 306.
3. مفردات راغب، واژه رمض.
4. بقره (2) آیه 185.
5. مجمع البحرین، ج2، ص 223 ، واژه رمض.
6. مستدرک الوسائل، ج7، ص 487 و 546.
7. محمد ابراهیم آیتی، تاریخ اسلام، ص 298.
8. بقره (2) آیه 183 تا 185.
9 . وہی حوالہ.
10 . تفسیر نمونه، ج1، ص 633، بنقل از قاموس کتاب مقدس ، ص 28 ؛ تورات، سفر تثنیه،فصل 9 ، شماره 9.
11. تفسیر المیزان، ج2، ص 7.