سوال
مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
ایک مختصر جواب
فتوی کے معنی میں" مرجعیت" ایک فقہی اصطلاح ہے کہ اس کے مقا بلے میں، " تقلید" کا مفہوم قرار پا یا ہے، یعنی اگر کوئی شخص " مرجع" ہے تو دوسرے لوگ اس کے مقلد ہیں۔ اس لحاظ سے " مرجعیت" کے مفہوم کے تجزیہ کے لئے " تقلید" کے معنی کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
فارسی زبان میں تقلید کے معنی دلیل کے بغیر کسی کی پیروی کرنا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے مشہور شعر :
خلق را " تقلید شان" بر باد داد
اے دوصد لعنت بر این تقلید باد
میں اسی مہوم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن فقہی اصطلاح میں " تقلید" سے مراد کسی غیر ماہر کا ایک تخصصی امر میں کسی ماہر کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اسی وجہ سے پہلے مفہوم کے بر خلاف جو عقلا کی نظر میں منفی اور مذموم ہے ۔ اس کے دوسرے معنی مکمل طور پر قابل قبول ہیں اور دینی مسائل میں تقلید کے جائز ہونے کی سب سے اہم دلیل، یہی عقلائی نکتہ ہے کہ ایک غیر ماہر انسان کو تخصصی مسائل میں اس امر کے ماہر شخص کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔ تقلید کے تمام لفظی دلالت "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون"[1] اگر کسی چیز کو نہیں جانتے ہو تو اس کے عالموں سے سوال کرو"میں مضمر ہے اور یہی امر عقلا کی نظر میں بھی قابل قبول ہے۔ اس توصیف کے پیش نظر، فقیہ کی مرجعیت، اس کے فقہ میں مہارت اور تخصص اور شرعی منابع سے احکام الہی کے استنباط کی قدرت ہے۔
اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے مندرجہ ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے:
مھدی ہادوی تہرانی کی کتاب " ولایت و دیانت" قم مؤسسہ فرھنگی خانہ خرد، طبع دوم 1380 ش