امام زمانه (عج) کس کے ھاتھوں شھيد کئے جائيں گے اور ان کے بعد والا زمانه کتنا طولاني ھوگا؟
جواب امام زمانه (عج)کي عمر کے خاتمه کي کيفيت کے بارے ميں دوقسم کي روايتيں پائي جاتي ھيں ، ان ميں سے بعض روايتوں کے مطابق امام زمانه (عج) کي عمر کا خاتمه فطري موت ھوگا اور بعض روايتوں کے مطابق ان کي عمر کا خاتمه شھادت سے ھوگا ۔ ليکن حضرت (عج) کا قاتل کون ھوگا ، اس کے بارے ميں کوئي قابل و ثوق روايت نھيں پائي جاتي ھے ۔ اسي طرح کوئي ايسي قابل اعتبار دليل بھي نھيں پائي جاتي ھے، جس سے معلوم ھوجائے که امام زمانه (عج) کے بعد قيامت برپا ھونے تک کتنا لمبا عرصه ھوگا ۔ اگر چه اس مدت کے طولاني ھونے کا امکان قوي تر ھے ۔ شيعوں کے عقائد کے مطابق امام زمانه (عج) کے بعد رجعت واقع ھوگي اور بعض ائمه اطھار (ع) دوباره دنيا ميں آکر حکومت کريں گے اور بعض مردے بھي زنده ھوں گے ۔
تفصيلي جواب: قرآن مجيد ميں ارشاد ھے: "ھر نفس موت کا مزه چکھنے والاھے۔"[۱] اس آيت کے مطابق که تمام مخلوقات کے بارے ميں سنت الھي بيان کرتي ھے ، امام زمانه (عج) بھي عدل و انصاف کو قائم کرنے اور عالمي حکومت تشکيل دينے کے بعد وفات پائيں گے ۔ ليکن کيا وه فطري موت يا شھادت سے اس دنيا سے رحلت کريں گے ؟ اس سلسله ميں بعض روايتوں سے معلوم ھوتا ھے که وه فطري موت سے رحلت فرمائيں گے ۔ مندرجه ذيل روايتيں اس کي گواھي ديتي ھيں: ۱ ۔ ام سلم (رض) پيغمبر خدا صلي الله عليه وآله وسلم سے يوں نقل کرتي ھيں : "مھدي ، ميرے خاندان اور فاطمه کے فرزندوں ميں سے ھيں ۔ ۔ ۔ وه لوگوں ميں ان کے پيغمبر کي سنت پر عمل کريں گے ، پھر سات سال کے بعد رحلت کريں گے اور مسلمان ان پر نماز پڑھيں گے ۔"[٢] ۲ ۔ آيه شريفه : ﴿ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَيْهِم﴾[۳] "اس کے بعد ھم تمھيں دوباره ان پر غلبه ديں گے" ۔ کے بارے ميں تفسير کرتے ھوئے امام صادق عليه السلام فرماتے ھيں : (رجعت کے زمانه ميں) اپنے ستر صحابيوں کے ھمراه، (امام) حسين (ع) خروج کريں گے، جبکه ان کے سروں پر دو پھلو والي زرّين ٹوپياں ھوں گي اور اعلان کرنے والے لوگوں سے کھيں گے که : يه حسين ھے جس نے خروج کيا ھے، يھاں تک که مومنين ميں ان کے بارے ميں کوئي شک و شبھه نھيں کرے گا اور وه جان ليں گے که وه دجّال اور شيطان نھيں ھيں، اور وه آپ ميں (حق کے) حجت قائم ھيں اور جب شيعوں کے دلوں ميں ان کي معرفت واقع ھوگي ، حضرت حجت رحلت فرمائيں گے اور جو ان کو غسل ديں گے اور کفن و حنوط کريں گے اور انھيں دفن کريں گے وه حسين (بن علي) (ع) ھوں گے ۔ وصي اور امام کے بغير کوئي شخص وصي (کے کفن و دفن) کا مسئول نھيں بن سکتا ھے ۔[۴] ۳ ۔ ايک روايت ميں امام صادق عليه السلام ، سے يه سوال کيا جاتا ھے که : دنيا ميں رجعت کرنے والا پھلا شخص کون ھے ؟ امام نے اس کے جواب ميں فرمايا : (امام) حسين (ع) قائم (عج) کے بعد خروج کريں گے ۔ ۔ ۔ حسين (ع) اپنے ان ساتھيوں کے ھمراه آئيں گے جو ان کے ساتھ شھيد ھوئے ھيں ، اس حالت ميں ستّر انبياء (ع) ان کے ھمراه ھوں گے ، جس طرح موسي بن عمران (ع) کے ھمراه بھيجے گئے تھے ۔ قائم (عج) اپني انگوٹھي انھيں ديں گے ۔ پس حسين (ع) پھلے شخص ھيں ، جو حضرت حجت (عج) کے غسل ،کفن ، دفن و حنوط کے مسئول ھوں گے اور انھيں قبر ميں اتار ديں گے ۔[۵] بعض دوسري روايتوں سے معلوم ھوتا ھے که امام زمانه (عج) شھادت کے درجه پر فائز ھوں گے: ۱ ۔ امام حسن مجتبي عليه السلام سے روايت نقل کي گئي ھے : "خدا کي قسم !پيغمبر خدا (ص)نے ھمارے ساتھ عھد و پيمان کيا ھے که اس امر (امامت) کو علي (ع) اور فاطمه (ع) کے باره فرزندان سنبھاليں گے اور ھم ميں سے کوئي ايسا نھيں ھے ،جسے زھر نه ديا جائے يا شھيد نه کيا جائے ۔ [۶] " ۲ ۔ اس سلسله ميں امام صادق عليه السلام مزيد فر ماتے ھيں: "خدا کي قسم ھم ميں سے کوئي ايسا نھيں ھے ، جسے قتل کر کے شھيد نه کيا جائے" ۔ [۷] ۳ ۔ امام رضا عليه السلام سے بھي اس سے مشابه ايک روايت نقل کي گئي ھے ۔[۸] مذکوره دوقسم کي روايتوں کے پيش نظر امام مھدي (عج) کي رحلت کي کيفيت کے بارے ميں صراحت اور قطعي طور پر کچھ کھنا مشکل ھے ۔ ليکن چونکه مرگ و شھادت کے درميان عموم و خصوص مطلق کا رابطه ھے ، يعني موت ، فطري طور پر مرنا يا شھادت ھے اور شھادت بھي موت کي ايک قسم ھے اور اس کے علاوه کچھ نھيں ھے ، اس لحاظ سے پھلي قسم کي روايتوں سے بھي شھادت کي تعبير کي جاسکتي ھے اور اس طرح بظاھر تعارض اور ٹکراؤ کو دور کيا جاسکتا ھے کيونکه پھلي قسم کي روايتيں اصل موت کو بيان کرتي ھيں نه که موت کي کيفيت کو ۔ پس ، اس فرض پر که امام زمانه (عج) شھادت پر فائز ھوں گے ، تو ان کا قاتل کون ھے ؟ کتاب "الزام الناصب" ميں بعض علماء سے نقل کي گئي ايک عبارت درج کي گئي ھے ، جس ميں حضرت حجت (ع) کے قاتل کو يوں متعارف کياگيا ھے:"جب حجت (کي حکومت) کے ستّر سال ختم ھوں گے ، وه رحلت کريں گے ۔ "سعيده" نامي "بني تميم" کي ايک عورت ، جس کي مردوں کے مانند داڑھي ھوگي، چھت سے ايک پتھر کي کونڈي حضرت حجت پر پھينک دے گي جبکه حضرت (عج) وھاں سے گزر رھے ھوں گے اور اس طرح انھيں قتل کردے گي ۔ حضرت (عج) کي رحلت کے بعد ، (امام) حسين (ع) ان کي تدفين کي ذمه داري سنبھاليں گے۔[۹] شھيد سيد محمد ، محمد صادق صدر نے اس عبارت کے بارے ميں کچھ تنقيد کے ساتھ اشکال کيا ھے [۱۰]، من جمله لکھتے ھيں : يه متن ، بنيادي طور پر (حضرت کي شھادت کے) موضوع کو ثابت نھيں کرتا ھے ، کيونکه نقل شده روايت کسي معصوم (ع) سے نھيں ھے ، بلکه بعض ايسے علماء سے نقل کي گئي ھے ، که ھم انھيں نھيں جانتے ھيں ، حتي که اگر يه متن ۔۔۔ جيسا که بظاھر معلوم ھوتا ھے ۔۔۔ بعض روايتوں کے مضا مين کي طرف بھي اشاره کرتا ، تو يه ايک ايسي مرسل روايت ميں تبديل ھوتا که جس کي نه سند مشخص ھے اور نه کوئي امام روايت کرتا ھے ۔ اس کے علاوه ، بيان شده روايت کي سند ضعيف ھے اور اس کے مضامين نا قابل فھم ھيں اس لئے اس سے کوئي چيز ثابت نھيں کي جاسکتي ھے۔[۱۱] امام زمانه (عج) کے توسط سے عالمي حکومت تشکيل پانے کے بعد رجعت واقع ھوگي ۔ رجعت کے يه معني ھيں که ، امام زمانه (عج) کے ظھور کے بعد بعض ائمه اطھار (ع) زنده ھوں گے ۔ ھماري روايتوں ميں بعض انبياء (ع) ، جيسے: حضرت عيسي (ع) اور بعض ائمه (ع) جيسے : امام حسين (ع) اور رسول اکرم اور ائمه (ع) کے اصحاب ، جيسے سلمان فارسي ، مقداد ، جابر بن عبدا لله انصاري ، مالک اشتر اور مفصل کي رجعت بيان کي گئي ھے ۔ رجعت شيعوں کے عقائد کا ايک جزو ھے که اس کے سلسله ميں بھت سي روايتيں نقل کي گئي ھيں ، يھاں تک که بعض علماء ،جيسے علامه مجلسي ايسي روايتوں کے تواتر[۱٢] کے قائل ھيں ۔[۱۳]
منابع اور مآخذ: [۱] آل عمران، ۱۸۵. [٢] علامه مجلسي ، بحار الانوار ، ج ۵۱ ، ص ۱۰۴ ، ح ۳۹ ۔ [۳] اسراء ، ۶ ۔ [۴] کليني ، الکافي ، ج ۸ ، ص ، ۲۵۰، ھمچنين ملاحظه ھو : بحار الانوار ، ج ۵۳ ، ص ۹۴ ، ح ۱۰۳ ۔ [۵] بحار الانوار ، ج ۵۳، ص ۱۰۳ ،ح ۱۳۰ ۔ [۶] بحارالانوار ، ج ۲۷ ، ص ۲۱۷، ح ۱۹ ۔ [۷] ايضاً ، ص ۲۰۹ ، ح ۷ ۔ [۸] ايضاً ص ۲۱۴ ، ح ۱۶ ۔ [۹] يزدي حائري علي ، الزام الناصب في اثبات الحجۃ الغائب ، ج ۲ ، ص ۱۶۷ ۔ [۱۰] سيد محمد ، محمد صادق ، صدر ، تاريخ ما بعد از ظھور ، ص ۸۸۱ ۔ ۸۸۳ ۔ [۱۱] ماھنامه "موعود" شماره ۸۲ کا ايک اقتباس ۔ [۱٢] علم حديث ميں روايتيں تين قسم کي ھوتي ھيں : الف حديث متواتر : وه روايت جسے بھت لوگوں نے نقل کيا ھے اس طرح که ان کي باتوں سے ھمارے لئے يقين حاصل ھوجائے که يه روايت معصوم سے صادر ھوئي ھے ۔ ب: روايت مستفيض : قدر و منزلت کے لحاظ سے خبر متواتره کے برابر نھيں ھے ليکن اس کا اعتبار خبر واحد سے زياده ھے ۔ ج: خبر واحد: وه روايت ھے جسے بھت کم لوگوں نے اسے نقل کيا ھے اور قدر و قيمت کے لحاظ سے اس کا راوي مذکوره دوقسموں سے نچلے درجه کا ھوتا ھے ۔ [۱۳] بحر الانوار ، ج ۲۳ ، ص ۳۵۹ ۔