کسى گھر کے انتظامى امور ميں سے اہم ترين اس کا معاشى پہلو ہے اور گھر کى آمدن اور خرچ کا حساب ہے اور با سمجھ خاندان آمد و خرچ کے حساب کو پيش نظر رکھتے ہيں اور آمدنى کے مطابق خرچ کرتے ہيں ہر خاندان کو جاننا چاہيے کہ پيسہ کس راستے پر خرچ کرے سمجھدار خاندان قرض سے ہميشہ بچنے کى کوشش کرتے ہيں اور پريشانيوں ميں گرفتار نہيں ہوتے اور زندگى آرام سے اور دردرسر کے بغير گزارتے ہيں ان کے اقتصادى حالات خراب بھى ہوں تو تدريجاً انہيں بہتر بناتے ہيں اورزندگى کو فقر و بے سروسامانى سے نکال ليتے ہيں اس کے برعکسجسخاندان کا معاشى اعتبار سے ، اور آمدن و خرچ کے اعتبار سے نظام درست نہ ہو اور اس کے افراد بغير کسى حساب کے خرچ کرتے ہوں تو ايسا خاندان عموماً دوسروں کا مقروض اور مرہون رہتا ہے اپنے اخراجات پورے کرنے کے ليے ايسا خاندان ناچار سودى قرض ليتا ہے يا قرض پر مہنگى چيزيں خريدتا ہے يعنى دوسروں کے ليے زخمت اٹھاتا ہے ايسے خاندان کى زندگى زيادہ تر خوش نہيں گزرتى اور يہ بھى ہوسکتا ہے کہ زندگى کى ابتدائي ضروريات سے محروم رہے اور ان کى زندگى کى حالت مناسب نہ ہو، اگر چہ اس کى آمدنى اچھى ہى کيوں نہ ہو ليکن چونکہ ان کے گھر ميں کوئي عقل و تدبير نہيں ہوتى اورايسے گھر کے لوگ ہوس اور بلند پروازى کا شکار ہوتے ہيں لہذا زيادہ تر گرفتار بلاہى رہتے ہيں کسى خاندانکى خوشحالى اور آسائشے صرف کمال کرلانے پر منحصر نہيں ہے بلکہ اس سے بھى اہم عقل و تدبير اور کسى منظم معاشى پروگرام کے مطابق اس کو خرچ کرنا ہے امام صادق عليہ السلام فرماتے ہي: جب الله کسى خاندان کے ليے بھلائي اور سعادت چاہتا ہے تو انہيں زندگى ميں تدبير اور سليقہ عطا کرديتا ہے امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: ''تمام کمالات تين چيزوں ميں جمع ہيں ان ميں سے ايک زندگى ميں فہم و تدبير (سے) اور معاشى امور ميں ( عقل (سے کام لينا) ہے حضرت صادق عليہ السلام ہى فرماتے ہيں: ''فضول خرچى غربت و نادارى کا باعث بنتى ہے اور زندگى ميں اعتدال اور ميانہ روى بے نيازى اور استغناء کا ( باعث بنتے ہيں'' حضرت على عليہ اسلام فرمايا: اعتدال سے آدھى ضروريات پورى کى جا سکتى ہيں امير المومنين على عليہ السلام فرماتے ہيں: فضول خرچ کى تين نشانياں ہيں: جو چيز اس کے پاس نہيں ہوتى وہ کھاتا ہے جس چيز کے ليے اس کے پاس پيسے نہيں ہوتے وہ خريد تاہے اور جس لباس کى قيمت ادا نہيں کرسکتا اسے پہنتا ہے گھر کے مالى امور کو منظم کرنے کے ليے ضرورى ہے کہ سب سے پہلے مياں بيوى کے درميان ہم آہنگى پائي جائے اگر مياں يا بيوى گھر کى آمدنى کو مد نظر نہ رکھيں اور بغير کسى حساب کتاب کے خرچ کريں تو ان کے گھر کاکام نہيں چل سکتا دوسرے درجے پربچوں ميں بھى باہمى تعاون اور ہم آہنگى کى ضرورت ہوتى ہے گھر کے بچے بھى اگر آمدنى کو پيش نظر نہ رکھيں اور بغير کسى حساب کتاب کے خرچ کريں تو بھى خاندان مشکلات اور مصائب کاشکار ہوجائے گا ماں باپ کو چاہيے کہ مالى امور ميں اپنے بچوں کے ساتھ ہم فکرى پيدا کريں اور انہيں گھر کى آمدنى اور خرچ سے آگاہ کريں بچوں کو تدريجاً يہ بات سمجھنا چاہيے کہ پيسے آسانى او رايسے ہى ہاتھ نہيں آجاتے بلکہ اس کے ليے محنت صرف ہوتى ہے انہيں جاننا چاہيے کہ باپ زحمت اٹھاتا ہے اور ہرروز کام پر جاتا ہے تا کہ پيسے کماکرلائے اور گھر کے اخراجات پورے کرے اور اگر ماں بھى کہيں کام يا ملازمت کرتى ہو تو يہ بات بھى بچوں کو سمجھنا چاہيے اور اگر ماں خانہ دار ہو تو بچوں کو يہ بھى جاننا چاہيے کہ گھر کا نظام آسانى سے نہيں چلتا بلکہ اس کى ماں شب و روز محنت کرتى ہے چاہيے کہ بچے آہستہ آہستہ ماں باپ کے کام اور گھر کى آمدنى کى مقدار کو جانيں انہيں يہ سمجھنا چہيے کہ ماں باپ کى آمدنى ہى سے گھر کسے سارے اخراجات پور ے ہوتے ہيں اور اسکے علاوہ ان کے ليے کوئي اور راستہ نہيں اور انہيں سمجھناچاہيے کہ گھر کے تمام اخراجات کو ان پيسوں کے اندر پورا ہونا چاہيے اور سارے اخراجات ايک ہى سطح کے نہيں ہوتے بلکہ بعض اخراجات کو ترجيح دينا پڑتى ہے مثلاً مکان کا خرچ يا مکان کا کرايہ ، پانى اور بجلى کابل، روٹى اور کپڑے کے پيسے ، گھر ميں روزمرّہ کى ضروريات کا سامان اور ڈاکٹر کى فيسديگر ضروريات پر مقدم ہيں پہلے مرحلے ميں زندگى کى ضروريات پورى کرناچاہئيں باقى چيزيں بعد ميں آتى ہيں باقى چيزيں بھى ايک سطح کى نہيں ةوتيں بچوں کو يہ بات سمجھنى چاہيے اور ماں باپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہيے بچوں کو ابتدائي زندگى ہى سے اس امر کا عادى بنايا جانا چاہيے کہ ان کى خواہشات اور توقعات کو گھر کى آمدنى سے ہم آہنگ ہونا چاہيے انہيں بے جا خواہشات اور بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے سے بچنا چاہيے انہيں چاہيے کہ اپنے آپ کو گھر کا ايک باقاعدہ فرد سمجھيں اور گھر کا خرچ چلانے ميں اپنے آپ کو شريک سمجھيں وہ يہ نہ سمجھنے لگ جائيں کہ ہم کوئي بلند مرتبہ لوگ ہيں اور ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ ہمارے خرچے پورے کريں بچوں کو صرف اپنى خواہشات کو پيش نظر رکھ کر گھر کى باقى ضروريات کونظر انداز نہيں کردينا چاہيے بچے کو اوائل عمر ہى سے اپنى خواہشات سے چشم پوشى کرکے گھر کى ضروريات کو ترجيح دينے کى عادت پڑنى چاہيے انہيں بچوں نے آئندہ بڑے ہو کر نظام چلانا ہے لہذا انہيں ابھى سے فضول خرچ نہيں ہونا چاہيے گھر کى مالى حالت خوب اچھى ہى کيوں نہ ہو پھر بھى ماں باپ کو نہيں چاہيے کہ وہ بچوں کو اجازت ديں کہ وہ بے حد و حساب خرچ کرتے ہيں انہيں چاہيے کہ بچوں کو سمجھائيں کہ سب لوگ ايک خاندان کے فروہيں اور امير وں کو چاہيے کہ غريبوں کى مدد کريں اور اگر کوئي کم آمدنى والا خاندان ہے اور مشکل سے روزانہ کے اخراجات پورے ہوتے ہيں تو انہيں چاہيے کہ اپنى روزانہ کى آمدن کے مطابق اخراجات کريں البتہ انہيں نہيں چاہيے کہ اپنى مشکلات کى شکايت اپنے بچوں سے کريں بلکہ انہيں صبر و استقامت کا درس ديں اور انہيں آئندہ زندگى کو بہتر کرنے کے ليے آمادہ کريں جب بچے ميں کام کرنے کى صلاحيت پيدا ہوجائے تو اسے کام کرنے پر ابھاريں بچے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر تم بھى کام کروگے تو اس سے آمدنى ہوگى اور پھر ہمارے گھر کے حالات بھى بہتر ہوجائيں گے بچے کو يہ عادت ڈاليں کہ وہ اپنى آمدنى کاکچھ حصّہ گھر ميں دے دے کيونکہ وہ اسى خاندان کے ساتھ کررہتا ہے بچے ميں مفت خورى کى عادت نہيں پيدا ہونى چاہيے بچوں کا جيب خرچ بھى گھر کى آمدنى کے مطابق ہونا چاہيے