زمانہ حاضر اور مستقبل میں جو کہ عصر ظہور جانا جاتا ہے کون سی چیزیں مھدویت کے لیے خطرہ ہیں مہربانی کرکے منابع کےذکر کے ساتھ واضح کریں۔
جواب ایک جامع جواب تک پہنچنے کےلیے پہلے ضروری ہے کہ مھدویت کی تعریف کی جائے پھر اس کے خطرات اور آفات جو اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں پر بحث کریں۔
مھدویت: حضرت مھدی کے وجود پر اس طرح اعتقاد رکھنا کہ وہ بارھویں امام ہیں جو خدائی امر و مصلحت سے ابھی پردہ غیب میں ہیں اور ایک دن وہ ظہورفرماکر دنیا کو جو ظلم و ستم سے بھر گئی ہوگی، عدل و انصآف سے بھر دیں گے اور اس اما م کے شیعہ اس دن کے انتظار میں ہیں۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام رضا )ع( سے انتظار فرج کے بارے میں پوچھا تو حضرت نے فرمایا: فرج ایک آسانی ہے ، کتنا اچھا صبر کرنا اور انتظار فرج کرنا" [1]
دنیا میں ہر چیز کی ایک آفت ہے جو اس کو ختم کرتی ہے[2] اسی لئے ہر چیز کو آفت اور تباہ و بربادی سے بچانے کے لیے سب سے پہلے اس آفت کو پہچاننا ضروری ہے پھر اس آفت کو ختم کرنے کےلیے اقدام کرنا چاھیئے ، جو امور مھدویت کے لیے خطرہ جانے جاتے ہیں وہی آفات ہیں جو ھر چیز کو نقصان پہنچادیتی ہیں اگر چہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہم صرف تین کی طرف اشارہ کریں گے:
۱۔ حضرت علی )ع( ایک روایت میں فرماتے ہیں : ھر چیز کے لیے آفت ہے اور خیر کی آفت برے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے[3]
۲۔ اگر سب سے اچھا قانون غیر شایستہ نافذ کرنے والے کے ہاتھ لگے اگر سب سے قیمتی چیز نا اھل کے ہاتھ آئے تو نہ قانون پر عمل در آمد ہوگااور نہ وہ قیمتی چیز باقی رہے گی، مھدویت بھی اس قانون سے الگ نہیں ہے جھوٹے مدعی وہی فاسد اور شاطر اور نا اھل افراد ہیں جو مھدویت کے قیمتی جوھر کا لبادہ اوڑھ کر ، اسے اپنے پست ادعا کی آفت سے نقصان پہنچادیتے ہیں اور یہ شیعہ دشمن عناصر ہیں اور وھابیوں کے لیے بہانہ پیش کرتے ہیں، البتہ یہ ادعا ہی اس عقیدے کی حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ ہمیشہ جعل واقعیت کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے مثال کے طور پر ۲۰۰۰ ھزار روہپہ کا نوٹ کبھی وضع نہیں ہوا ہے ، پس ادعای مھدویت نہیں ہونا چاھیئے تھا۔
۲۔ جھالت: جو امر ہمیشہ حقیقت کو نقصان پہنچادیتا ہے وہ دوستوں کی جہالت اور ان کی نا آگاھی ہے۔
امام علی)ع( فرماتے ہیں: دو آدمیوں نے میری کمر توڑ دی ہے بے عمل عالم، اور عبادت گزار جاھل۔ پہلا اپنی بے عملی سے لوگوں کے عقیدے کو نقصان پہنچادیتا ہے اور دوسرا اپنی بیوقوف عبادتوں سے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے -[4]
آج کل ہر کوئی واضح طورپر نا آگاہ اور جاھل دوستوں کے خطرے کو مشاھدہ کرتا ہے، جو انتظار کے نام سے مھدویت کی فکر پر کتنی کاری ضرب لگادیتے ہیں۔ جو انتظار کے نام سے ظلم و ستم کے مقابلے میں خاموش رہتے ہیں اور دشمن کی حمایت کرتے ہیں، یا ھر مرتبہ کچھ مدت کے بعد ظہور کے چند ظاہری نشانات اور علائم دیکھ کر منتظروں کو قریب الوقوع ظہور کی تاریخ کی خوشخبری دیتے ہیں جبکہ ظہور کے لیے اس طرح کے وقت معین کرنے کی روایات میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کام حضرت مھدی )عج( کے منتظروں کے لیے ناامیدی اور یاس کا سبب بنتا ہے۔
فضل بن یسار کہتا ہے میں نےحضرت امام باقر )ع( کی خدمت میں عرض کی کہ کیا اس امر )ظہور امام زمان عج( کے لیے کوئی خاص وقت معین ہے ، فرمایا: وقت مقرر کرنے والے جھوٹ کہتے ہیں ، ایک مرتبہ پھر کہا ، وقت معین کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، بے شک جب موسی اپنے پروردگار کی دعوت سے کوہ طور پر گئے اور ان سے تیس دن کا وعدہ کیا جب خدا نے تیس دن کے اوپر اور دس دن زیادہ کئے تو ان کی قوم نے کہا: جو وعدہ موسی نے ہم سے کیا انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی اور انہوں نے جو چاھا کیا۔[5]
ج: دنیا پرستی ، بے شک جو صحیح معنوں میں عاشق ہے وہ نہ صرف اپنے معشوق سے بے گانہ نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو معشوق کی چاھت کے مطابق قرار دیتا ہے [6] اسی لئے کہا گیا ہے مصلح کے منتظروں کو خود صالح ہونا چاھیئے۔
انتظار: عام طور پر اس کی حالت کو کہا جاتا ہے جو موجودہ حالت سے غمگین ہو اور بہتر حالت کی کوشش کرتا ہے مثال کے طور پر جو بیماری سے صحت یاب ہونے کے لیے کوشش کرتا ہے اور جو باپ اپنے فرزند کے لوٹنے کا انتظار کرتا ہے جو سفر پر گیا ہے یہ دونوں بیماری اور فرزند کی دوری سے پریشان ہیں اور بہتر حالت کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ تاجر جو بازار کے اتار چڑھاو سے پریشان ہے اور اقتصادی بحران کے ختم ہونے کا انتظار کرتا ہے اس پر یہ دو حالتیں طاری ہوتی ہیں، موجودہ حالت سے پریشانی اور "بہترحالت کی کوشش" اس بناء پر انتظار کا مسئلہ اور حضرت مھدی کی حکومت حق اور عدل اور عالمی مصلح کے قیام، اصل میں دو عنصر سے مرکب ہیں۔ ایک عنصر "منفی" دوسرا عنصر "مثبت" ہے، منفی عنصر وہی موجودہ حالت سے پریشانی ہے اور مثبت عنصر بہتر حالت کےلئے کوشش ہے اگر یہ عنصر انسان کی روح کی گہرائیوں میں داخل ہوجائے تو یہ وسیع اعمال انجام دینے کا سبب بنے گا ، یہ دو طرح کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ظلم و ستم کے کارندوں سے ھر طرح کے تعاون اور ھم آھنگی کو ترک کرنا بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھانا۔
۲۔ خود سازی اور تھذیب نفس ، اور اپنی مدد کرنا اور جسمانی، روحانی، اور معنوی مادی طور پر اس واحد عالمی حکومت کی تشکیل کے لیلے مدد کرنا جب گہری نظر سے دیکھیں گے تو اس کے دونوں عناصر سازندہ اور بیدار اور آگاھی کی حرکت کے عامل بن جائیں گے۔[7]
[1] بروجردی ،سید محمد ابراھیم ، تفسیر جامع ، ج ۳، ص ۲۹۳، و ۲۹۴، انتشارات صدر، تھران، طبع ششم ، ۱۳۶۶ ش۔ [2] پابند، ابو القاسم ، نھج الفصاحۃ ، مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول )ص( ناشر دنیای دانش، تھران، چاپ چھارم، ۱۳۸۲ش۔ [3] تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد ، غررالحکم و درر الکلم، ص ۴۳۱، ۹۸۴۳، انتشارات دفتر تبلیغات ، قم، ۱۳۶۶، ھ۔ [4] کراجکی ، ابو الفتح ، معدن الجواھر، ص ۲۶، کتابخانہ مرتضویہ ، تھران، ۱۳۹۴ ھ۔ [5] فھری زنجانی، سید احمد ، غیبت نعمانی، ، فھری، ص ۳۴۷، ۳۴۶۔ ناشر دار الکتب الاسلامیۃ ، تھران، طبع چھارم ، ۱۳۶۲۔ش [6] حضرت امام صادق )ع( سے منسوب ایک شعر میں آیا ہے: لو کان حبک صادق،لان المحب لمن یحب مطیع۔ [7] مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ ، ج ۷، ص ۳۸۱، ۳۸۲،ناشر دار الکتب الاسلامیۃ ، تھران، طبع اول ، ۱۳۷۴ھ۔ islamquest.net