کیا امام حسین (علیہ السلام) اپنی شہادت سے باخبر تھے ؟
عبدالحفیظ پتافی
مئی 30,2015-5:56 AM
مشاہدات: 5009
سوال
کیا امام حسین (علیہ السلام) اپنی شہادت سے باخبر تھے ؟
جواب
تاریخی شواہد کی بنیاد پر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت سے باخبرتھے اور شہادت کے یقین کے ساتھ آپ نے اپنے قیام کا آغاز کیا تھا اورا س کے روشن شواہد اسی کتاب میں بیان ہوئے ہیں لیکن اس بحث میں پہلے ان شواہد کی طرف اشارہ کریں گے جو اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ امام علیہ السلام کواپنی شہادت کا علم تھا اس کے بعد اوپر والے سوال کا جواب دیں گے ۔
یہ بات بھی بیان کردینی ضروری ہے کہ وہ روایات جو شیعہ اوراہل سنت نے پیغمبر اکرم سے امام حسین کی شہادت کے عنوان سے نقل کی ہیں وہ اس قدر زیادہ مشہور ہیں کہ ابن عباس فرماتے ہیں:
ماکنا نشک اھل البیت وھم متوافرون انالحسین بن علی یقتل بالطف۔ ہم سب اہل بیت کو شک نہیں تھا کہ امام حسین سرزمین طف(کربلا)میں شہید کردیئے جائیں گے (١) ۔
جیسا کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف امام بلکہ تمام اہل بیت یہاں تک کہ آپ کی جائے شہادت سے بھی باخبر تھے ۔
علامہ مجلسی نے اس متعلق بحارلانوار میں اکہتر روایات نقل کی ہیں(٢) ۔
جو چیزیں یہاں ہم بیان کریں گے وہ بہت کم ہیں اورصرف وہ چیزیں ہیں جو خود امام کی زبان سے جاری ہوئی ہیں۔
١۔ امام علیہ السلام نے مدینہ سے حرکت کرتے وقت بنی ہاشم سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے :
ان من لحق بی منکم استشھد ومن تخلف لی بیلغ الفتح۔ تم سے جوبھی میرے ساتھ آئے گا اس کو شہادت نصیب ہوگی اور جو رہ جائے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا (٣) ۔
٢۔ جس وقت آپ کے بھائیوں میں سے کسی نے آپ کی شہادت کی خبر امام حسن علیہ السلام سے نقل کی تو امام حسین نے اس کے جواب میں فرمایا:
حدثنی ابی ان رسول اللہ اخبرہ بقتلہ وقتلی، و ان تربتی تکون بقرب تربتہ فتظن انک علمت ما لم اعلمہ۔ میرے والد سے نقل ہوا ہے کہ رسول اسلام نے ان کو میرے اور میرے والد کے قتل ہونے کی خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ میری قبر ان کی قبر کے نزدیک ہوگی، تم سمجھتے ہو کہ جو چیز تم جانتے ہو وہ میں نہیں جانتا (٤) ۔
٣۔ اسی سے مشابہ گفتگو جو آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے مکہ میں کی تھی، جس وقت محمد حنفیہ نے آپ کو عراق نہ جانے کی پیشنہاد کی تھی فرمایا:
آتانی رسول اللہ بعد ما فارقتک فقال: یا حسین ! اخرج فان اللہ قد شاء ان یراک قتیلا ۔ تم سے جدا ہونے کے بعد میں نے خواب میں رسول خدا کودیکھا کہ فرمارہے تھے: ائے حسین ! حرکت کرو، کیونکہ خدا تم کو قتل شدہ دیکھناچاہتا ہے (٥) ۔
٤۔ ایک دوسری مثال اس وقت جب آپ نے مسلم کو کوفہ بھیجتے ہوئے فرمایا: میں تم کو اہل کوفہ کی طرف بھیج رہا ہوں خدا وند عالم جس طرح چاہتاہے اور وہ پسند کرتا ہے تمہارے کام کو آسان کرے گا ۔
پھر فرمایا:
ارجو ان اکون انا وانت فی درجة الشہداء۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اور مجھے شہادت کا درجہ نصیب ہوگا (٦) ۔
یہ بات اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ امام نے اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے شہادت کی راہ کو انتخاب کیاہے اور اسی کی آرزو کرتے ہیں۔
٥۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ آپ نے جب کوفہ کے ایک آدمی نے آپ سے اہل کوفہ کے خطوں کے متعلق پوچھا تو آپ نے اس کے جواب میں ان کو اپنا قاتل بتایا، فرمایا:
ھذہ کتب اھل الکوفة الی، ولا اراھم الا قاتلی۔ یہ کوفہ کے لوگوں کے خطوط ہیں لیکن میں ان کو اپنے قاتل کے سواء کچھ نہیں سمجھتا (٧) ۔
٦۔ان سب سے واضح ترین امام کاوہ بیان ہے جو آپ نے مکہ کے لوگوں کے درمیان عراق کی طرف حرکت حرکت کرنے سے پہلے فرمایا تھا:
... وخیرلی مصرع انا لاقیہ، کانی باوصانی یتقطعھا عسلان الفلوات بین النواویس و کربلا، فیملان منی اکراشا جوفا و الجربة سغبا، لا محیص عن یوم خط بالقلم۔
خدا وند عالم نے میرے لئے ""شہادت گاہی"" اختیار کی ہے اور میں اس شہادت تک ضرور پہنچوں گا، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ عراق کے بیابانوں کے بھیڑیے کربلا اور نووایس (کربلا کے نزدیک یہودیوں کے قبرستان) کے درمیان میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ہیں اور وہ اپنے پیٹوں اور خالی جیبوں کو (مجھے قتل کرنے اور انعام حاصل کرنے کے ذریعہ) بھر رہے ہیں ، قضا وقدر کے ہاتھوں جوچیز لکھی گئی ہے اس کے سامنے کوئی چارہ نہیں ہے (٨) ۔
ان باتوں کو ملاحظہ کرتے ہوئے اور دوسرے نمونوں کو دیکھتے ہوئے کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ امام نہ صرف اپنی شہادت سے واقف تھے بلکہ اپنی شہادت کی جگہ اور اپنے قاتلوں سے بھی واقف تھے ۔
٧۔ محمد بن عمر(امام حسین (علیہ السلام) کے ایک بھائی) اپنے والد عمر بن علی بن ابی طالب (علیہ السلام) سے اس طرح نقل کرتے ہیں : جس وقت میرے بھائی امام حسین (علیہ السلام) نے یزید کی بیعت کرنے سے منع کردیا تو میں ان کے پاس گیا اورعرض کیا : اے اباعبداللہ ! میں آپ پر قربان ہوجائوں، آپ کے بھائی امام حسن (علیہ السلام) نے اپنے والد (امیرالمومنین علی (علیہ السلام)) سے میرے سامنے نقل فرمایا : اس وقت میں رونے لگا اور میرے رونے کی آواز بلند ہوگئی ۔ امام نے مجھے سینہ سے لگایا اور فرمایا :
""حدثک انی مقتول "" تمہیں خبر دی کہ میں قتل کردیا جائوں گا ؟!!
میں نے عرض کیا : خدا نہ کرے اے فرزند رسول خدا !
فرمایا : ""سالتک بحق ابیک بقتلی خبرک؟"" تمہیں تمہارے والد کی قسم ! کیا تمہیں میرے شہید ہونے کی خبر دی تھی؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔
فرمایا : «حَدَّثَني أَبي أَنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله عليه وآله) اَخْبَرَهُ بِقَتْلِهِ وَ قَتْلي، وَ أَنَّ تُرْبَتي تَكُونُ بِقُرْبِ تُرْبَتِهِ، فَتَظُنُّ أَنَّكَ عَلِمْتَ ما لَمْ اَعْلَمْهُ، وَ أَنَّهُ لا أُعْطي الدَّنِيَّةَ مِنْ نَفْسي أَبَداً وَ لَتَلْقِيَنَّ فاطِمَةُ اَباها شاكِيَةً ما لَقِيَتْ ذُرِّيَّتُها مِنْ أُمَّتِهِ، وَ لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَحَدٌ اذاها فِي ذُرِّيَّتِها». میرے والد نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کو ان کی اور میری شہادت کی خبر دی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ میری قبر ان کی قبر سے نزدیک ہوگی ،تم خیال کرتے ہو کہ جس بات کی تمہیں خبر ہے ،میں اس سے بے خبر ہوں ؟!
(اسی طرح خبر دی )میں کبھی بھی ذلت و خواری کو قبول نہیں کروں گا اور یہ بھی خبر دی کہ فاطمہ اپنے والد کے دیدار کے لئے جائیں گی اور اپنی اولاد پر امت کے ظلم کی شکایت کریں گی اور جو بھی ان کی اولاد پر ظلم کرنے کے ذریعہ ان کو اذیت دے گا وہ بہشت میں داخل نہیں ہوگا (٩) ۔
٨۔ جس وقت امام حسین (علیہ السلام) مدینہ کو چھوڑ رہے تھے ، ام سلمہ(رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی باوفا زوجہ) ان کے پاس آئیں اور عرض کیا : میرے بیٹے ! عراق کی طرف جا کر مجھے غمگین نہ کرو کیونکہ میں نے تمہارے نانا سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میرے بیٹے حسین (علیہ السلام) کو کربلا کے میدان میں قتل کردیا جائے گا ۔
امام نے فرمایا : «يا اُمّاهُ وَ أَنَا وَاللّهِ أَعْلَمُ ذلِكَ، وَ أَنِّي مَقْتُولٌ لا مَحالَةَ، وَ لَيْسَ لي مِنْ هذا بُدٌّ، وَ إِنّي وَاللّهِ لاََعْرِفُ الْيَوْمَ الَّذي اُقْتَلُ فيهِ، وَ أَعْرِفُ مَنْ يَقْتُلُني، وَ أَعْرِفُ الْبُقْعَةَ الَّتي اُدْفَنُ فيها، وَ إِنّي أَعْرِفُ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَهْلِ بَيْتي وَ قَرابَتي وَ شيعَتي، وَ إِنْ أَرَدْتِ يا أُمّاهُ أُريكَ حُفْرَتي وَ مَضْجَعي»؛ ۔ اے والدہ گرامی ! میں بھی یہ جانتا ہوں اور یقینا میں قتل کر دیا جائوں گا اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔
خدا کی قسم ! میں اس روز کو بھی جانتا ہوں جس روز قتل کردیا جائوں گا اور اپنے قاتل اور دفن ہونے کی جگہ کو بھی جانتا ہوںاور میرے ساتھ جو میرے اہل بیت ، شیعہ اور اصحاب قتل ہوں گے ان سب کو بھی جانتا ہوں !
اے والدہ گرامی ! کیا میں آپ کو اپنی قبر دکھلائوں ؟!
پھر کربلا کی طرف اشارہ کیا ، زمین ہموار ہوگئی اورپھر آپ نے اپنی اور اپنے سپاہیوں کی قبروں اور شہادت کی جگہ کو دکھلایا ،اس وقت امام سلمہ نے گریہ شروع کیا اور آپ کے کاموں کو خدا کے حوالہ کیا ۔
امام علیہ السلام) نے فرمایا : «يا أُمّاهُ قَدْ شاءَ اللّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ يَراني مَقْتُولا مَذْبُوحاً ظُلْماً وَ عُدْواناً، وَ قَدْ شاءَ أَنْ يَرى حَرَمي وَ رَهْطي وَ نِسائِي مُشَرَّدينَ، وَ أَطْفالي مَذْبُوحينَ مَظْلُومينَ مَأْسُورينَ مُقَيَّدينَ، وَ هُمْ يَسْتَغيثُونَ فَلا يَجِدُونَ ناصِراً وَ لا مُعيناً»؛
اے والدہ گرامی ! خداوندعالم مجھے دشمنوں کے ظلم و ستم سے مقابلہ کرتے ہوئے مقتول اور شہید دیکھنا چاہتا ہے ، میری خاندان، رشتہ دار اور عورتوں کو منتشر اور اپنے گھر سے دور کرنا چاہتا ہے ، میرے بچوں کو مقتول اور اسیری کی قید میں دیکھنا چاہتا ہے جبکہ وہ فریاد کررہے ہوں گے لیکن کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا ۔
٩۔ ایک دوسری روایت میں ذکر ہوا ہے کہ ام سلمہ نے عرض کیا : میرے پاس ایک مٹی ہے جس کوتمہارے نانا نے مجھے ایک شیشی میں بند کرکے دی تھی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :
""واللہ انی مقتول کذلک ، وان لم اخرج العراق یقتلونی ایضا "" ۔ خدا کی قسم ! میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجھ شہید کیا جائے گا اور اگر میں عراق کی طرف بھی نہ جائوں جب بھی قتل کردیاجائوں گا ۔
پھر دوسری مٹی کو ایک شیشی میں رکھا اور ام سلمہ کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا : ""اجعلھا مع قارورة جدی فاذا فاضتا دما فاعلمی انی قد قتلت "" ۔ اس کو میرے نانا کی شیشی کے پاس رکھدو اور جب بھی ان دونوں کی مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ مجھے قتل کردیا گیا !
ام سلمہ کہتی ہیں : جب روز عاشورا آیا ، عصر کے وقت میں نے ان دونوں شیشیوں کی طرف دیکھا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ان میں سے خون اُبل رہا ہے ، میں نے نالہ و فریاد کی (١٠) ۔
١٠۔ امام صادق (علیہ السلام) کے ایک صحابی حمزہ بن حمران کہتے ہیں : ہم امام حسین (علیہ السلام) کے چلے جانے اور محمد بن حنفیہ کے (مدینہ میں) رہ جانے کے متعلق باتیں کررہے تھے ،امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : میں تمہیں ایک بات بتاتاہوں لیکن آج کے بعد اس کے متعلق کچھ نہ پوچھنا ۔ جس وقت امام حسین (علیہ السلام) اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے جدا ہوئے اور چلنے کا ارادہ کیا تو ایک قلم او رکاغذ پرلکھا :
«بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ. مِنَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِىِّ بْنِ أَبي طالِب إِلى بَني هاشِم، أَمّا بَعْدُ، فَإِنَّ مَنْ لَحِقَ بي مِنْكُمْ اِسْتَشْهَدَ، وَ مَنْ تَخَلَّفَ لَمْ يَبْلُغْ مَبْلَغَ الْفَتَحِ وَ السَّلامُ» . بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حسین بن علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی طرف سے تمام بنی ہاشم کے نام ۔ اما بعد ۔ تم میں سے جو بھی میرے ساتھ جائے گا وہ شہید ہوجائے گا اور جو نہیں جائے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ والسلام (١١) ۔
اس خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام اپنے سفر کے آغاز سے اپنے ہدف کا انجام جانتے تھے، لیکن جو لوگ نہیں جانتے اور غلط عقیدہ رکھتے ہیں وہ ہم سے کہتے ہیں کہ امام کو یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ موت کا فرشتہ ان کا انتظار کررہا ہے پھر بھی مدینہ سے عراق کی طرف روانہ ہوئے ۔
جی ہاں ! وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلام کی حفاظت کے لئے یزیدکی بیعت کو ترک کرنے کی کس قدر مہنگی قیمت چکانی پڑے گی اور آپ کی یہ عظمت آپ کے مقام کو اور بھی زیادہ صاف و شفاف کردیتی ہے ۔
اس کے علاوہ آپ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فرمایا : قافلہ شہادت سے باقی رہ جانے والے لوگ کسی جگہ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور یزید کے تسلط میں رہ کر ان کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا ۔
١۔ اخبار الطوال دینوری ،صفحہ ٢٤٥ ۔
٢۔ مقتل الحسین ، خوارزمی ، جلد ١، صفحہ ١٦٠ ۔
٣۔ بحارالانوار، جلد ٤٤ ، صفحہ ٢٢٣ تا ٢٦٦ ۔
٤۔ موسوعة كلمات الحسين، ص 296; مناقب ابن شهر آشوب، ج 4، ص 76 یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اسی مضمون کے مشابہ کلمات مکہ سے نکلتے ہوئے لوگوں کے درمیان بیان فرمائی : «مَنْ كانَ باذِلا فينا مُهْجَتَهُ مُوَطِّناً عَلى لِقاءِ اللّهِ نَفْسَهُ فَلْيَرْحَلْ مَعَنا ۔ تم میں سے ہر ایک اس بات پر آمادہ ہے کہ ہماری راہ میں اپنا خون نثار کرے اور اپنی جان دیدے اور ہمارے ساتھ رہے (اعیان الشیعہ، جلد ١، صفحہ ٥٩٣ ) ۔
5. ملهوف (لهوف)، ص 99-100.
6. بحار الانوار، ج 44، ص 364 و اعيان الشيعة، ج 1، ص 593.
7. مقتل الحسين خوارزمى، ج 1، ص 196.
8. تاريخ ابن عساكر، ج 33، ص 211 (بخش امام حسين(عليه السلام)).
9. ملهوف (لهوف)، ص 35.
10. ملهوف (لهوف)، ص 99-100. بحارالانوار، ج 44، ص 331-332 و ج 45، ص 89، ح 27 و الخرائج والجرائح، ج 1، ص 253.
11. ملهوف (لهوف)، ص 128-129 ; بحارالانوار، ج 44، ص 330 و ج 45، ص 84-85 و كامل الزيارات، ص 76 (با مختصر تفاوت).
12 . کتاب عاشورا ریشه ها، انگیزه ها، رویدادها، پیامدها، زیر نظر آیت الله مکارم شیرازی، ص 259.