کیا امام حسین (علیہ السلام) کى رقیه نامى کوئى بیٹى تهى؟
عبدالحفیظ پتافی
مئی 23,2015-5:53 AM
مشاہدات: 5276
سوال
کیا امام حسین (علیہ السلام) کى رقیه نامى کوئى بیٹى تهى؟
جواب
کربلا کا واقعه جان نثاریوں اور انسانى کمالات سے بهرا هوا واقعه هے، اس واقعه میں بعض چهرے سن و سال کے لحاظ سے چهوٹے تهے، ان کى طرف خاص توجه نهیں کى گئى هے – حضرت رقیه (س) کے سوانح حیات، اپنے والد بزرگوار، چچا اور دوسرے بزرگوں کے نورانى شعار کے تحت قرار پائے هیں – اس وجه سے تاریخ کى کتابوں میں امام حسین (ع) کى رقیه نامى کسی کم سن بیٹى کا کهیں نام نهیں آیا هے – بعض مقاتل میں امام حسین (ع) کا ایک کلام ذکر کیا گیا هے که فرماتے هیں : "یا اختاه، یا ام کلشوم و انت یا زینب وانت یارقیه و انت یافاطمه انت یارباب، انظرن اذا انا قتلت فلا تشقق على جیبا و لا تخمش على وجها ولا تقلن على هجرا " [1] یعنى : " خواهرم! ام کلثوم اور تم اے زینب، تم اے رقیه و فاطمه و رباب! میرى بات کو مد نظر رکهنا (یاد رکهنا ) جب میں قتل کیا جاوں تو میرے لئے گریبان چاک نه کرنا اور چهرے کو زخمى نه کرنا اور کوئى نامناسب کلام نه کرنا –" [2]
امام حسین (ع) کے خطاب کے طریقه اور کلام کے مفهوم کے پیش نطر، که فرماتے هیں: "جب میں قتل کیا جاوں، میرے لئے گریبان پاک نه کرنا اور چهرے کو زخمى نه کرنا" بعید لگتا هے که حضرت (ع) نے کسى تین یا چار ساله بیٹى کو یوں مخاطب قرار دیا هو –
امام حسین (ع) کے ایک دوسرے کلام میں نقل هوا هے، اور حضرت نے یوں فرمایا: "اَلا یا زِینَب، یا سُکَینَة! یا وَلَدی! مَن ذَا یَکُونُ لَکُم بَعدِی؟ اَلا یا رُقَیَّه وَ یا اُمِّ کُلثُومِ! اَنتم وَدِیعَةُ رَبِّی، اَلیَومَ قَد قَرَبَ الوَعدُ "[3] "یعنى اے زینب! اے سکینه! اے فرزندان! میرے بعد تمهارے لئے کون باقى بچے گا؟ اے رقیه واے ام کلثوم! تم میرے پاس خدا کى امانت تهیں-
مذکوره کلام کے سیاق اور مفاهیم کے پیش نظر، بعید نهیں هے که امام حسین (ع) کی رقیه سے مراد آپ کى تین ساله بیٹى رقیه هو-
ایک جانب قدیم ترین کتاب جس میں امام حسین (ع) کى تین یا چار ساله بیٹى کا ذکر کیا گیا هے، عمادالدین طبرى کى کتاب "کامل بهائى" هے – اس کتاب میں آیا هے که : امام حسین (ع) کى ایک چارساله بیٹى تهى–"
اپنے باپ کو کافى یاد کرتى تهى، ایک رات کو خواب میں دیکها که اپنے باپ کے پاس بیٹهى هے، جب نیند سے بیدار هوئى تو کها : میرے بابا کهاں هیں، اب مجھ میں طاقت نهیں هے؟ اس سے پوچها گیا که تم نے کیا د یکها؟ جواب میں کها میں نے اپنے آپ کو اپنے بابا کے پاس پایا اور انهوں نے مجهے آغوش میں لے لیا – یزید نے جب اس واقعه کو سنا، تو کها اس کے بابا کے سر کو لا کر اسے دکهایئے، جب سرپوش کو اٹها لیا گیا اور اس بچى نے اپنے بابا کا سر دیکها، ایک هى آه لینے کے بعد وهیں پر جان دیدى- [4]
لیکن علماء بعض قرائن کے پیش نظر، امام حسین (ع) کے لئے ایک ایسى بیٹى کو ثابت کرتے هیں- امام حسین (ع) کى شخصیت کے بارے میں لکهی گئی کتاب کے مصنف حضرت آیت الله مرعشى نجفى، جو علم رجال اور تاریخ کے عصر حاضر کى عظیم شخصیت تهے، سے اس سلسله میں سوال کیا جاتا هے اور وه جواب میں فرماتے هیں : "اگرچه قابل اعتبار مدارک و منابع اس قسم کى کسى بیٹى کے بارے میں خاموش هیں، لیکن اس قدر شهرت کے پیش نظر اس سے انکار نهیں کیا جاسکتا هے "[5]
آستان قدس رضوى کے بین الاقوامى مجله، ماهنا مه زائر سنه 1384 کے شماره 135 (فرورى 2004ء) میں حضرت رقیه کے مقبره کے باره میں ایک دلچسپ داستان درج کى گئى هے که هم اسے قدرے خلاصه کے ساتھ یهاں پر نقل کرتے هیں، اس مابنامه میں آیا هے : " آیت الله میرزا یاشم خراسانى کهتے هیں: نجف کے ایک جلیل القدر عالم دین شیخ محمد على شامى نے مجھ سے فرمایا که : میرے جد مادرى آقائے سید ابراهیم دمشقى 90 سال کے تهے اور ان کا شجره نسب سید مرتضى سے ملتا تها، ان کى صرف تین بیٹیاں تهیں – ان کى بڑى بیٹى نے ایک رات کو خواب میں حضرت رقیه کو دیکها اور انهوں نے اس سے فرمایا: اپنے باپ سے کهنا که شهر کے حاکم کو اطلاع دے که میرى قبر میں پانى بهر گیا هے اور اس کی مرمت کرنے کى ضرورت هے- ان کى بیٹى یه خواب اپنے باپ کے سامنے بیان کرتى هے لیکن ان کے والد اس کے نتائج کى وجه سے (کیونکه حکومت سنیوں کے هاتھ میں تهی) کسى کو اطلاع نهیں دیتے هیں – تین راتوں تک ان کى بیٹى مکرر یهى خواب دیکهتى اور بیان کرتى هے، لیکن ان کے باپ اس کو اهمیت نهیں دیتے هیں، یهاں تک که چوتهى رات کو ان کے والد خود خواب میں دیکهتے هیں که حضرت رقیه ان سے فرماتى هیں:آپ کیوں شهر کے حاکم کو مطلع نهیں کرتے هیں که میرى قبر کى تعمیر کریں ؟ دوسرے دن سید شهر کے ڈپٹى کمشنر کے پاس جاتے هیں اور ان خوابوں کى تفصیل ان کے پاس بیان کرتے هیں – حاکم تمام شیعه اور سنى علماء کو جمع کرکے ان سے کهتا هے که دوسرے دن غسل کرکے آیئں تاکه قفل کو کهول دیں اور اس نے تجویز پیش کى که جس کے هاتھ سے قفل کهل جائے وهى قبر کو کهول دے گا اور قبر کى تعمیر کے لئے جسد مطهر کو باهر لائے گا- لیکن قفل سید ابراهیم کے علاوه کسى کے ذریعه نهیں کهلا – بیشک پانی قبر میں داخل هوچکا تها- سید ابراهیم تین دن تک اس بدن کو آغوش میں لئے هوئے رورهے تهے – نماز کے وقت جسد کو ایک پاک و صاف کپڑے میں رکھ کر نماز کے بعد اسے آغوش میں رکهتے تهے – مقبره کى تعمیر میں تین دن لگ گئے، ان تین دنوں کے دوران سید نے کوئى چیز نهیں کهائى ، سید نے پانى پینے کى ضرورت بهى محسوس نهیں کى اور مسلسل تین دن تک اس پر نیند کا غلبه بهى نه هوا- تین دن کے بعد بدن کو تیار کى گئى قبر میں رکها گیا – 1323 هجرى شمسى (1944ء) میں اس قبر کى ایران کے صدر اعظم امین السلطان حاج میرزا على اصغر اتابک کے ذریعه مرمت کى گئى اور 23 ربیع الثانى 1405ه اس مقبره کى تعمیر نو کى بنیاد، شام کے وزیر اوقاف، ڈاکٹر محمد الخطیب نے ڈالى – اور 1419 هجرى میں اس کى تعمیر اور زیبائى کا کام مکمل هوا – اس کى زیبائى اور تزیئنات کے تمام وسائل ایران سے شام پهنچا دئے گئے تهے اور ایرانى کاریگروں نے اپنى کاریگرى اور هنرمندى کا مظاهره کیا -
[1] ابن طاووس، ابوالقاسم ابوالحسن بن سعدالدین، اللهوف علی قتلی الطفوف، ص 141 ، انتشارات اسوه، قم، طبع اول، 1414 ه . ؛ اعلام الوری، ص 236.
[2] پژوهشی در دیدگاههای تاریخی در مورد حضرت رقیه(علیهاالسلام)سے اقنباس
[3] جمعی از نویسندگان، موسوعة کلمات الامام الحسین (علیهالسلام)، ص 511 ،انتشارات دارالمعروف، قم،طبع اول، 1373 ه ش.
[4] طبری، علاء الدین، کامل بهائی،ج2،ص179 (قرن ششم هجری)( یه کتاب، عالم بزگوار، شیخ عمادالدین الحسن بن محمد طبرى امامى کى تالیف هے اور انهوں نے اسے وزیر بهاءالدین، کے حکم سے، هلا کو خان کى حکومت کے دوران، تالیف کیا هے- بظاهر اس کا نام "کامل بهائى" اس لئے رکها گیا هے که بهاءالدین کے حکم سے تالیف کى گئى هے- جواد محدثى نے "فرهنگ عاشورا" کے صفحه 200 پر اس مطلب کو شیخ عباس قمى کى کتاب منتهى الامال صفحه 437 سے نقل کیا هے – بالکل یهى مطلب تاریخ الفى ، ص 861 میں بهى آیا هے – معالى السبطین، ج 2، ص 127میں اس بیٹى کا نام رقیه لکها هے -
[5] شخصیت حسین (ع)، ص 615.