سوال:
1 سننے میں آیا ہے کہ ایران میں کسی محقق عالم نے زیارت عاشورا کے بارے میں ایک تحقیقی کتاب تالیف کی ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ زیارت عاشورا میں لعن کا یہ حصہ " الھم العن اول ظالم- - - الخ، نہیں تھا اور اسے اضافہ کیا گیا ہے، یہ کس حد تک صحیح ہے؟
2. افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے علاقہ ، برصغیر ھند و پاکستان میں ابھی تک لوگ حکم اور فتوی کے بارے میں ضروری آگاہی نہیں رکھتے ہیں- مہربانی کرکے اس پر قدرے مفصل روشنی ڈالئے اور یہ بھی بتائیے کہ قمہ زنی کے بارے میں ولی امر مسلمین کا حکم ہے یا فتوی ؟
جوابات:
زیارت عاشورا کے بارے میں ابتدائی منابع کے پیش نظر زیارت عاشورا کے لعن والے حصہ :« وَابْدَأْ بِهِ اَوَّلاً ثُمَّ الثَّانِىَ وَالثَّالِثَ والرَّابِعَ اَللَّهُمِّ الْعَنْ یَزیدَ خامِساً» کے بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں:
١۔ زیارت عاشورا کی پوری عبارت من جملہ مذکورہ لعن اس کا حصہ ہے ۔ بالکل یہی عبارت “ مصباح المتھجد” میں آئی ہے: «اللهم خص أنت أول ظالم باللعن منی و ابدأ به أولا ثم الثانی ثم الثالث و الرابع اللهم العن یزید خامسا».[1]
۲۔ کامل الزیارات میں نقل کے لئے متن کے پیش نظر بعض افراد نے اس زیارت کو مذکورہ لعن کے بغیر قبول کیا ہے۔ زیارت عاشورا کا جو متن “ کامل الزیارات” میں پایا جاتا ہے وہ اس عبارت کے بغیر ہے کہ: « وَابْدَأْ بِهِ اَوَّلاً ثُمَّ الثَّانِىَ وَالثَّالِثَ والرَّابِعَ اَللَّهُمِّ الْعَنْ یَزیدَ خامِساً» بلکہ اس زیارت کا متن یہ ہے کہ:“ اللهم خص أنت أول ظالم ظلم آل نبیک باللعن ثم العن أعداء آل محمد من الأولین و الآخرین اللهم العن یزید و أباه.[2]
اس بنا پر ابن قولویہ کے نقل کے مطابق زیارت عاشورا کے متن میں درمیانیعبارت، یعنی: « وَابْدَأْ بِهِ اَوَّلاً ثُمَّ الثَّانِىَ وَالثَّالِثَ» نقل نہیں کی گئی ہے البتہ اس میں یزید اور معاویہ پر لعن ذکر کی گئی ہے۔
[1]. شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ص 776، مؤسسة فقه الشیعة، بیروت، 1411ق.
[2]. ابن قولویه، کاملالزیارات، ص 177، مرتضویه، نجف اشرف، 1356ق.
islamquest.net