سوال:
کیا قرآن مجید کی آیات سے امام علی علیھ السلام کی امامت کو ثابت کیا جاسکتا ھے ؟ ( البتھ ان دلائل کو اھل سنت بھائیوں کے لئے چاھتا ھوں) مھربانی کرکے بیان فرمائیے کھ میرے ثبوت کا طریقھ کا ر کیسا ھونا چاھئے؟
جواب:
قرآن مجید اور ا سکی تشریح میں اھل سنت کی کتابوں میں نقل کی گئی روایتوں سے استفاده کرنا ، حضرت امام علی علیھ السلام کی امامت کو ثابت کرنے کا بھترین طریقھ ھے، اس سلسلھ میں دیکھنا چاھئے کھ آیت کی دلالت اور اس کا مفھوم کیا ھے اور آیات کے مفھوم و مطلب کو سمجھنے کےلئے آیات کا مصداق بیان کرنے والے لفظی قرائن، شان نزول اور تفسیر پر توجھ کرنے کی خاص اھمیت ھے۔
قرآن مجید میں ایسی بھت سی آیات ھیں جو حضرت علی علیھ السلام اور دوسرے ائمھ اطھار علیھم السلام کی امامت کو بیان اور ثابت کرنے پر دلالت کرتی ھیں۔ البتھ ان آیات کی دلالت [1] کافی حد تک احادیث ( متواتر ) موجود ھونے کے پیش نظر ھے ، جو رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی طرف سے ان آیات کی شان نزول کے سلسلھ میں نقل کی گئی ھیں اور شیعوں او سنیوں کی طرف سے قابل قبول ھیں ، یھاں پر ھم چند آیات کی طرف اشاره کرتے ھیں۔ [2]
۱۔ آیھ تبلیغ:
" اے پیغمبر : آپ اس حکم کو (لوگوں تک ) پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یھ نھ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیںپھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ، اللھ کافروں کی ھدایت نھیں کرتا ھے"۔ [3]
خداوند متعال نے اپنے پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کو پوری شدت کے ساتھه حکم دیا ھے کھ اپنی رسالت کو پھنچادیں اور روایات کے مطابق ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے اس آیت کے نازل ھونے کے بعد، غدیر خم نامی ایک جگھ پر حضرت علی علیھ السلام کو اپنے جانشین کے عنوان سے منصوب فرمایا: [4]
غدیر کا قصھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی عمر مبارک کے آخری سال حجۃ الوداع میں واقع ھوا۔ اور آنحضرت (ص) نے "۔۔ من کنت مولاه فھذا علی مولاه " یعنی جس کا میں مولا ھوں اس کے علی بھی مولا ھیں" کا جملھ بیان فرما کر حضرت علی بن ابیطالب کی امامت کی وضاحت فرمائی اور اس طرح اپنی رسالت کو پھنچادیا ۔
یھ واقعھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے ۱۱۰ اصحاب [5] ۸۴ تابعین اور ۳۶ دانشورون اور مؤلفین کے توسط سے نقل کیا گیا ھے ، علامھ امینی نے محکم اسناد و دلائل کے ساتھه مشھور اسلامی کتابوں سے اپنی کتاب " الغدیر " میں ان تمام روایتوں کو درج کیا ھے۔
۲۔ آیھ ولایت:
" ایمان والو ! بس تمھارا ولی اللھ ھے اور اس کا رسول اور وه صاحبان ایمان ، جو نماز قائم کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکوه دیتے ھیں" [6]
بھت سے مفسرین اور محدثین نے کها ھے کھ یھ آیھ شریفھ حضرت علی علیھ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔
اھل سنت کے مشھور دانشور ، سیوطی نے اپنی تفسیر " الدر المنثور" میں مذکوره آیت کے ذیل میں" ابن عباس" سے نقل کرتے ھوئے لکھا ھے : " علی علیھ السلام دوران نماز رکوع کی حالت میں تھے کھ ایک سائل نے مدد کی درخواست کی اور حضرت علی علیھ السلام نے اپنی انگوٹھی کو صدقھ کے طورپر اسے دیدیا ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے سائل سے پوچھا۔: یھ انگوٹھی تجھے کس نے عطا کی ھے ؟ سائل نے حضرت علی علیھ السلام کی طرف اشاره کرتے ھوئے کھا: اس شخص نے جو رکوع کی حالت میں ھے" اس وقت یھ آیھ شریفھ نازل ھوئی " [7]
اسی طرح اھل سنت کے دانشوروں " واحدی" [8] اور " زمخشری" [9] نے بھی اس روایت کو نقل کیاھے اور وضاحت کی ھے کھ آیھ شریفھ " انما ولیکم اللھ ۔۔۔ " بھی حضرت علی علیھ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔
فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں عبد اللھ بن سلام سے نقل کرتے ھیں کھ جب یھ آیھ شریفھ نازل ھوئی تو ، میں نے رسول خدا صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے عرض کی کھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کھ علی (ع) نے رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی ایک سائل کو صدقھ کردی ، اسی لئے ھم ان کی ولایت کو قبول کرتے ھیں ! انھوں نے اسی کے مانند ایک اور روایت اس آیت کے شان میں ابوذر (ڑض) سے نقل کی ھے۔ [10]
طبری بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں اور اس کے شان نزول کے بارے میں متعدد روایات نقل کرتے ھیں ، جن میں اکثر یھ کھتے ھیں کھ : یھ آیت حضرت علی علیھ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔ [11]
مرحوم علامھ امینی (رح) نے اپنی کتاب " الغدیر " میں اس آیت کے حضرت علی علیھ السلام کے حق میں نازل ھونے کے سلسلھ میں اھل سنت کی تقریباً بیس قابل اعتبار کتابوں سے معتبر اسناد و منابع کا ذکر کرکے نقل کیا ھے۔ [12]
اس آیت میں حضرت علی علیھ السلام کی ولایت ، خدا اور اس کے رسول صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی ولایت کے مساوی قرار دی گئی ھے۔
۳۔ آیھ اولی الامر :
" ایمان والو ! اللھ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو، جو تمھیں میں سے ھیں۔۔۔" [13]
دانشوروں [14] نے کھا ھے کھ آیھ اولی الامر حضرت علی علیھ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔
مثلا ً حاکم حسکانی " حنفی نیشاپوری ، ( اھل سنت کے مشھور مفسر قرآن ) نے س آیت کے ذیل میںپانچ حدیثیں نقل کی ھیں اور ان سب احادیث میں " اولی الامر " کا عنوان حضرت علی علیھ السلام کے مطابق قرار پایا ھے۔ [15]
" ابو حیان اندلسی مغربی" کی " تفسیر البحر المحیط" میں " اولی الامر " کے بارے میں جو اقوال نقل کئے گئے ھیں وه مقاتل ، میمون وکلبی ( تین مفسرین) سے نقل کئے گئے ھیں۔ جن سے مراد ائمھ ااھل بیت علیھم السلام ھیں [16]
ابو بکر مومن شیرازی ۰ (اھل سنت کے ایک عالم ) اپنے رسالھ " اعتقاد" میں ابن عباس سے نقل کرتے ھیں کھ مذکوره آیت حضرت علی علیھ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔ [17]
دوسری جانب سے اس آیھ شریفھ میں ایک ھی سبک و سیاق میں اور لفظ "اطیعوا" کی عدم تکرار سے خدا ، رسول (ص) اور اولی الامر کی اطاعت واجب ھوئی ھے اور اس لحاظ سےا ولی الامر معصوم ھے ( ورنھ ان کی اطاعت کا مطلق صورت میں دستور کا معنی نھیں تھا) جس طرح خدا اور اسکا پیغمبر صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم معصوم ھیں۔
روایات کے مطابق ، معصومیں ، مخصوص شیعوں کے امام ھیں۔
جو کچھه ھم نے بیان کیا، وه حضرت علی علیھ السلام کی امامت وولایت کے بارے میں نازل ھوئی صرف تین آیات سے مربوط ان احادیث کا ایک حصھ تھا، جو سنی کتابوں اور ان کے قابل اعتبار راویوں اور شیعوں کی کتابوں سے نقل کی گئی ھیں۔ مذکوره آیات اور اس سلسلھ میں دوسری آیات کے بارے میں اھل سنت کی کتابوںمیں قابل غور نکات پائے جاتے ھیں ، مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے قارئین کرام سے اس موضوع پر قابل اعتبار کتابوں کا مطالعھ کرنے کی گزارش کی جاتی ھے۔
خلاصھ کے طور پر بیان کی گئی مذکوره تین آیتوں کے علاوه آیھ صادقین " یا ایھا الذین آمنو اتقوا للھ و کونوا مع الصادقین " [18]
اور آیھ قربی " " قل لا اسئلکم علیھ اجرا الا المؤدۃ فی القربی" [19]
بھی براه راست حضرت علی علیھ السلام اور ائیمھ اطھار علیھم السلام کی ولایت و امامت کے ذکر میںھیں ، جس کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی روایتوں میں بیان کیا گیا ھے ، اور جنھیں سنی اور شیعھ کتابوں میں نقل کیا گیا ھے۔
اس کے علاوه دوسرے اصحاب پر حضرت علی علیھ السلام کی فضیلت و برتری بیان کرنے والی کئی آیات بھی ھیں ۔ اب عقل کے اسناد پر کھ "مرجوح" کو " ارجح" پر مقدم قرار دینا قبیح ھے ۔ اس طرح یھ نتیجھ حاصل کیا جاسکتا ھے کھ پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی جانشینی و امامت حضرت علی علیھ السلام کا حق ھے۔
مزیز معلومات کےلئے ، آیۃ اللھ ناصر مکارم شیرازی حفظھ اللھ کی نگرانی میں تالیف شده تفسیر پیام قرآن ج ۹ " امامت و ولایت در قرآں مجید" ص ۱۷۷ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ھے۔
[1] اس امر کی آگاھی حاصل کرنے کےلئے کھ حضرت علی علیھ السلام کا نام کیوں واضح طور پر قرآن مجید مین ذکر نھیں ھوا ھے ، ملاحظھ ھو عنوان قرآن مجید میں اماموں علیھم السلام کے نام۔
[2] مزید معلومات کے لئے ملاحظه ھو عنوان : " دلائل اعتقاد بھ امامت و امامت "
[3] سوره مائده / ۶۷ ، مزید آگاھی کے لئے ملاحظھ ھو عنوان : " اھل سنت و آیھ تبلیغ"
[4] پیام قرآن ، مکارم شیرازی، ج ۹ ، امامت در قرآن ، ص ۱۸۳ بھ بعد۔
[5] ابو سعید خدری ، زید بن ارقم، جابر ابن عبدا للھ انصاری ، ابن عباس ،براء بن عازب ، حذیفه ، ابو ھریره ، ابن مسعود و عامر بن لیلی، ان میں شامل ھین۔
[6] سوره مائده / ۵۵۔
[7] الدر المنثور ، ج ۲ ص ۲۹۳۔
[8] اسباب النزول ، ص ۱۴۸۔
[9] تفسیر کشاف ، ج ۱ ، ص ۶۴۹۔
[10] تفسیر فخر رازی ، ج ۱۲، ص ۲۶۔
[11] تفسیر طبری ، ج ۶ ص ۱۸۶۔
[12] الغدیر ، ج ۲، ص ۵۲ و ۵۳۔
[13] سوره نساء ، ۵۹۔
[14] "تفسیر برهان" میں بھی سنی منابع سے اس آیت کے ذیل مین دسیوں روایتیں نقل کی گئی ھین جن مین آیا ھے کھ : مذکوره آیت حضرت علی علیھ السلام یا حضرت علی اور تمام ائمھ اھل بیت علیھم السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے ، حتی کھ بعض روایتوں مین ایک ایک کرکے باره اماموں کے نام تک ذکر ھوئے ھیں ، تفسیر برھان ، ج ۱ ص ۳۸۱۔۔ ۳۸۷۔
[15] شواھد التنزیل ، ج ۱ ص ۱۴۸۔ تا ۱۵۱۔
[16] بحر المحیط ، ج ۳، ص ۲۷۸۔
[17] احقاق الحق، ج ۳، ص ۴۲۵۔
[18] سوره توبھ / ۱۱۹۔ روایتوں میں بیان کیا گیا ھے کھ : صادقین کا مراد حضرت علی علیھ السلام و اھل بیت پیغمبر علیھم السلام ھیں۔
[19] سوره شوری / ۳۳ ، مزید معلومات کے لئے ملاحظ ھو عنوان: اھل بیت علیھم السلام و آیھ مودت۔