رزق کے بارے میں کونسی روایت موجود ہے؟

سوال
سلام علیکم رزق کے بارے میں کونسی روایت موجود ہے؟ رزق حلال حاصل کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ افزائش رزق کے لئے کونسی دعائیں موجود ہیں؟ اور کونسے کام رزق کم ہونے کا سبب بنتے ہیں؟


 جواب
سوال میں پیش کئے گئے موضوع پر بحث کرنے سے پہلے، ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ لوگوں کے عام تصور کے خلاف کہ"رزق" کو صرف اس کے مادی مصادیق میں استعمال کرتے ہیں، روایتوں میں لفظ "رزق" وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور خدا وند متعال کی تمام نعمتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خواہ وہ نعمت مادی ہو یا معنوی۔ اس لحاظ سے تندرستی، آرام، حج جیسے واجبات بجالانے کی توفیق،  اچھے دوست وغیرہ، تمام رزق شمار ہوتے ہیں۔
البتہ حدیث کی کتابوں میں بہت سی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جو صرف مادی رزق سے متعلق ہیں، ہم ان میں سے بعض کی طرف مثال کے طور پر ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ رزق حاصل کرنے کی کوشش: امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: " جو شخص کم رزق کے پیچھے ہو، یہ کام اس کو زیادہ رزق ملنے کا سبب بن جاتا ہے اور اگر کوئی کم رزق کے پیچھے نہ جائے وہ زیادہ رزق کو بھی کھودے گا"۔[1]
2۔ وسعت رزق کے لئے نماز و دعا: کتاب کافی میں اس سلسلہ میں ایک عنوان آیا ہے[2] اور اس میں وسعت رزق کے لئے کئی دعائیں ذکر کی گئی ہیں، من جملہ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے زید شجام سے فرمایا: رزق زیادہ ہونے کے لئے واجب نمازوں کے سجدوں میں یہ دعا پڑھیں: "يَا خَيْرَ الْمَسْئُولِينَ وَ يَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ ارْزُقْنِي وَ ارْزُقْ عِيَالِي مِنْ فَضْلِكَ الْوَاسِعِ فَإِنَّكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم" اے سائلوں کے بہترین پناہ اور اے بہترین بخشش دینے والے، مجھے اور میرے اہل وعیال کو اپنے وسیع فضل سے رزق عطا کر کہ تو صاحب فضل عظیم ہے"[3]
اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک شخص، چند دن آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا اور ایک مدت کے بعد جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: ہمارے پاس آنے میں کونسی چیز تیرے لئے رکاوٹ بنی تھی؟
اس نے عرض کی: بیماری، فقر اور محتاجی۔ آنحضرت (ص) نے اس سے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ ایک ایسی دعا سکھادوں، جس کی وجہ سے خداوند متعال تجھ سے فقر اور بیماری کو دور کرے گا؟ اس نے جواب میں عرض کی: اے رسول خدا(ص) رحمت و دورود خدا آپ پر ہو، جی ہاں ( وہ دعا مجھے سکھائیے) پس رسول خدا (ص) نے فرمایا: کہدو: لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَ لَا وَلَداً وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيُّ مِنْ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا.[4]
راوی کہتا ہے: زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پھر سے حاضر ہوا اور عرض کی: اے رسول خدا(ص)! خداوند متعال نے (اس دعا کے واسطے) مجھ سے بیماری اور فقر کو دور کیا۔
3۔ طلوعین ( اذان صبح سے سورج چڑھنے تک) کے درمیان بیدار رہنا: محمد بن مسلم نے امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) سے نماز صبح کے بعد سونے کے بارے میں سوال کیا۔ امام (ع) نے جواب میں فرمایا:" اس دوران رزق تقسیم کیا جاتا ہے، مجھے پسند نہیں ہے کوئی اس وقت سوجائے۔"
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:" صبح کے وقت سونا منحوس ہے انسان کے چہرہ کو زرد اور بدصورت بنا دیتا ہے۔ اور اس قسم کی نیند، بدبخت انسانوں کی نید ہے اور خداوند متعال طلوع فجر سے آفتاب چڑھنے تک کے زمانہ میں ااپنے بندوں کے درمیاں رزق تقسیم کرتا ہے۔[5]
4۔ نماز شب پڑھنا: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک شخص نے امام (ع) کی خدمت میں تنگ دستی کے بارے میں شکوہ کرنے کے لئے زبان کھولی اور حد سے زیادہ گلہ شکوے کئے اور نزدیک تھا کہ بھوک کے بارے میں بھی شکوہ کرے۔ امام (ع) نے اس سے فرمایا: اے مرد! کیا تم نماز شب پڑھتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں۔ امام (ع) نے اس کے ساتھی کی طرف رخ کرکے فرمایا: جو شخص تصور کرتا ہے کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ بیشک خداوند متعال نے نمازشب کے ذریعہ دن کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے۔[6]"
رزق کو وسعت بخشنے والے اعمال، بہت زیادہ ہیں، لیکن ہم یہاں پر ان ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ بعض اسباب جو رزق میں کمی کا سبب بن جاتے ہیں، خلاصہ کے طور پر ان کی طرف بھی ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ نیت: البتہ، نیت، دونوں صورتوں(رزق کے کم و زیادہ ہونے میں) موثر ہے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:" مرد کا رزق اس کی نیت کے برابر ہے۔"[7] اس کلام سے مراد یہ ہے کہ، رزق کے کم و زیاد ہوںے میں انسان کی نیت موثر ہے۔ پس اگر اس کی نیت اور قصد یہ ہو کہ اس کے خاندان اور دوسروں کو بھی رزق میں وسعت دے تو خداوند متعال اس کے رزق میں اضافہ کرتا ہے اور اگر اس کی نیت ان کو تنگ دست رکھنا ہو تو خداوند متعال اسے بھی تنگ دستی میں قرار دے گا۔
2۔ بعض کام انجام دینا بھی، روایتوں میں رزق میں کمی ہونے کا عنوان بیان کیا گیا ہے۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:" رزق کو کم کرنے والے امور یہ ہی‏: مکڑی کا جال گھر میں رکھنا، حمام ( باتھ روم) میں حاجت بشری کرنا، جنابت کی حالت میں خورد ونوشت، درخت گزکی لکڑی سے خلال کرنا، کھڑی حالت میں بالوں میں کنگی کرنا، کوڑاکرکٹ کو گھر میں جمع کرنا، جھوٹی قسم کھانا، زنا، نماز مغرب وعشا کے درمیان سونا، سورج طلوع ہونے سے پہلے سونا، جھوٹ بولنے کی عادت ڈالنا، لہو لعب کی آواز سننا، رات کو کسی حاجتمند کو مسترد[نا امید] کرنا، خرچ و مخارج میں اعتدال کی رعایت نہ کرنا، صلہ ارحام کو منقطع کرنا۔[8]
رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:" بیس خصلتیں رزق میں کمی واقع ہونے کا سبب بنتی ہیں، من جملہ: قضائے حاجت کے لئے بسترہ سے عریان حالت میں بلند ہونا، کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہ دھونا، روٹی کے ٹکڑوں کی بے احترامی کرنا، لہسن اور پیاز کے چھلکوں کو نذرآتش کرنا، گھر کے دروازہ کی چوکھٹ پر بیٹھنا، رات کو جارو دینا، گھر کو لباس کے ایک حصہ سے صاف کرنا، آستین سے سرو صورت خشک کرنا، آلودہ برتن کو رات کے وقت نہ دھونا، پانی کے برتن کا ڈھکنا کھلا رکھنا، مسجد سے نکلنے میں جلدی کرنا، صبح صویرے بازار جانا اور رات ہونے تک بازار میں رہنا، فقراء سے روٹی خریدنا،اولاد پر نفرین کرنا، پہنے ہوئے لباس کی سلائی کرنا، پھونک مارکے دیا بجھانا۔[9]
اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال: 3783( سائٹ 4007) عنوان: " مقدر بودن روزی" اور سوال نمبر 13119 عنوان:" دعا بر کسب ثروت"، کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

[1] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 5، ص 311، ح 29، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365ش.
[2] ۔ملاحظہ ہو: الکافی، ج 2، ص 550، بَابُ الدُّعَاءِ لِلرِّزْقِ۔
[3]  ایضاً۔ ص 551، ح4.
[4] ایضاً، ص 551، ح3.
[5] ۔ طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار، ج 1، ص 350، ح 2، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1390ق.
[6] ۔ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 474، ح 1371، انتشارات جامعۀ مدرسین، قم، 1413 ق.
[7]۔ آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص 399، انتشارات دفتر تبلیغات، قم، 1366ش.
[8] ۔ طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الأنوار، ج1، ص 128، کتابخانۀ حیدریه، نجف، 1385ق.
[9] ۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 73، ص 314 ح1، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ق.

قرآن کا نزول دفعتا ہوا یا تدریجا ؟

سوال

قرآن کا نزول دفعتا ہوا یا تدریجا ؟

جواب

"شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن "

ماہ رمضان قمری اور عربی سال کا نواں مہینہ ہے جو ماہ شعبان اور ماہ شوال کے درمیان واقع ہے۔ قرآن کریم میں رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ کا نام نہیں آیا ہے۔

آیت کا بیان ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ نازل کا مطلب نیچے آنا اور نیچے اترنا ہے ایک بلند سے۔ قرآن کریم میں نزول کے لیے دو لفظیں استعمال ہوئی ہیں " انزال اور تنزیل" ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ انزال وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں نزول دفعی اور یکبارگی ہو۔ اور تنزیل وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں نزول تدریجی ہو۔ قرآن کریم وہ کتاب ہے جسے خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل کیا ہے۔ اور اس لیے اسے قرآن کہا گیا چونکہ جب تک اللہ کے پاس تھا پڑھا نہیں گیا جب پیغمبر [ص] پر اتارا تو پڑھا گیا۔ اس لیے کہ قرآن کا مطلب ہے پڑھا ہوا۔ جیسا کہ ارشاد ہوا "انا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون" (1) ہم نے اس کو عربی زبان میں قرآن قرار دیا تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔ یہ کلمہ "قرآن" قرآن کے مجموعہ پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اس کے اجزاء پر بھی۔

یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں ایک ساتھ دفعتا نازل ہوا۔ دوسری طرف سے اس آیہ کریمہ "و قرآنا فرقناه لتقراه على الناس على مكث، و نزلناه تنزيلا" (۲) کا ظاہر دلالت کرتا ہے اس بات پر کہ قرآن کریم تدریجی طور پر رسول اسلام کے دوران رسالت یعنی تئیس سال کے عرصے می نازل ہوا ہے اور تاریخ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے اسی وجہ سے بعض نے خیال کیا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔

بعض نے جواب دیا ہے کہ قرآن کریم دوبار نازل ہوا ہے ایک بار دفعی طور سے ماہ رمضان میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر، اور دوسری بار تدریجی طریقے سے آسمان دنیا سے زمین پر۔ یہ وہ جواب ہے جسے بعض مفسرین نے کچھ روایات سے اخذ کیا ہے۔ لیکن بعض دوسرے مفسرین نے ان پر اشکال کیا ہے کہ جس آیت میں نزول دفعی کا ذکر ہے اس میں آگے فرمایا ہے " ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان" قرآن کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ لوگوں کی ہدایت کرے اور حق و باطل کو جدا کرے۔ یہ مقصد قرآن کے نزول کا اس کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کے ساتھ سازگار نہیں ہے اس لیے کہ آسمان پر نازل ہونا اور لوگوں کا اس کی تعلیمات سے بے خبر ہونا کیسے انہیں ہدایت کر سکتا ہے؟

بعض نے اس اشکال کا جواب یوں دیا کہ قرآن کا ہادی ہونا اس کے آسمان دنیا پر نازل ہونے اور کچھ مدت تک وہاں رہنے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا قرآن کا مقصد لوگوں کی ہدایت ہے اور حق و باطل میں جدائی ہے لیکن ایک مدت تک یہ ہدایت متوقف رہی ہے جب تک کہ اس کے لیے زمین فراہم ہوتی۔ جیسا کہ مجلس میں کچھ قوانین پاس کئے جاتے ہیں لیکن ان کا وقت نہ آنے کی وجہ سے ان پر عمل نہیں ہوتا۔ جب وقت آتا ہے انہیں لاگو کیا جاتا ہے۔

لیکن حق بات یہ ہے کہ قوانین و دستورات کے حکم اور خطابات کے حکم میں فرق ہے خطاب صادر ہونے سے پہلے مخاطب کا ہونا ضروری ہے بغیر کسی مخاطب کے خطاب بے معنی اور لغو ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں جو اشخاص کی طرف خطاب ہوئے ہیں جیسے "قد سمع الله قول التى تجادلك فى زوجها و تشتكى الى الله و الله يسمع تحاوركما" (۳) .

"و اذا راوا تجارة او لهوا انفضوا اليها و تركوك قائما". (۴) اور "رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه، فمنهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر، و ما بدلوا تبديلا". (۵) ان تینوں آیات میں یا اس طرح کی دوسری آیات میں خطاب ان افراد کی طرف ہوا ہے جو پہلے سے موجود تھے۔

علاوہ از ایں، قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ پایا جاتا ہے اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ناسخ و منسوخ دونوں ایک ہی وقت میں ہوں۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن نازل ہونے سے مراد قرآن کا وہ حصہ ہے جو قرآن میں نازل ہوا ہے۔

لیکن یہ بات بھی صحیح نہیں ہے اس لیے کہ مفسرین کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ رسول خدا [ص] ستائیس رجب کو مقام رسالت پر مبعوث ہوئے اور کیسے ممکن ہے کہ رجب سے رمضان تک جو ایک مہینہ سے زیادہ کا فاصلہ ہے اس دوران ان پر قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی ہو ۔ حالانکہ سورہ علق گواہی دیتا ہے کہ یہ سورہ بعثت کے روز نازل ہوا اسی طرح سے سورہ مدثر بھی یہ گواہی دیتا ہے کہ بعثت کے ابتدائی دنوں میں نازل ہوا ہے بہر حال یہ بہت بعید ہے کہ قرآن کی پہلی آیت ماہ مبارک میں نازل ہوئی ہو اس کے علاوہ خود جملہ " شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اس بات پر صریحا دلالت نہیں کرتا کہ قرآن سے مراد اس کا پہلا حصہ ہے پس اس آیت کا قرآن کے پہلے حصہ پر حمل کرنا ایسا حمل ہے جس کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔

اور اس بات پر دلالت کرنے والی کہ قرآن ایک ہی وقت میں نازل ہوا ہے اس آیت کے علاوہ دوسری آیتیں یہ ہیں:

"و الكتاب المبين اناانزلناه فى ليلة مباركة انا كنا منذرين" (۶) "انا انزلناه فى ليلة القدر" (۷) ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پورا قرآن ایک ہی وقت میں نازل ہوا ہے یہ بات کہ نزول قرآن سے مراد اس کا ایک حصہ ہے ان آیات کے ظاہر سے میل نہیں کھاتی۔ اور نہ کوئی دوسرا قرینہ پایا جاتا ہے کہ ہم خلاف ظاہر عمل کریں۔

جو چیز ان تمام آیات پر تدبر کرنے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آیات جو قرآن کے شب قدر میں نازل ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں "انزال" کا لفظ استعمال ہوا ہے جو دلالت کرتا ہے کہ قرآن ایک بار میں نازل ہوا ہے۔ ان آیات میں سے کسی ایک میں بھی تنزیل کی تعبیر نہیں ہے۔ مثلا:

"شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن" (۸) دوسری جگہ ارشاد ہوا: "حم و الكتاب المبين انا انزلناه فى ليلة مباركة" (۹) ، سورہ قدر میں فرمایا: "انا انزلناه فى ليلة القدر" (۱۰) .

قرآن کا دفعتا ایک ساتھ نازل ہونا دو طرح سے ہو سکتا ہے یا یہ کہ مجموعی طور پر قرآن ایک ساتھ نازل ہوا ہو اگر اس کی آیات ایک ایک کر کے نازل ہوئی ہوں جیسے بارش مجموعی طور پر ایک ساتھ نازل ہوتی ہے کہ اس کے قطرے ایک ایک کر کے آگے پیچھے نازل ہوتے ہیں لیکن بارش کے نازل ہونے کو بھی انزال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ " کما انزلناہ من السماء [۱۱] اسی وجہ سے یہ فرمایا: "كتاب انزلناه اليك مبارك ليدبروا آياته" (۱۲) ہم نے اس کو تمہاری طرف مبارک بنا کر نازل کیا تاکہ اس میں تدبر کریں۔

یا یہ کہ قرآن جو چیز ہم اس سے اپنی معمولی سوچ کے مطابق سمجھتے ہیں جس کا لازم یہ ہے کہ اس کی آیتیں دھیرے دھیرے اور تدریجی طریقے سے نازل ہوں تاکہ ہم تدبر کر سکیں اس سے مافوق ایک اور حقیقت ہے جو ایک ساتھ نازل ہوئی ہے جس کا نزول دفعی ہے نہ تدریجی۔

اس بات پر یہ آیت دلالت کرتی ہے: "كتاب احكمت آياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير" (۱۳) وہ کتاب ہے جس کی آیات محکم ہیں پھر حکیم اور خبیر کی طرف سے تفصیل پا گئی۔ چونکہ کلمہ "حکمت" احکام سے ہے اور احکام " تفصیل" کے مقابلہ میں آتا ہے در نتیجہ احکام کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح سے ہو کہ اس کے جزء جزء نہ ہوں اور اجزاء ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں۔ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ یہ تفصیل جو آج ہم قرآن میں مشاہدہ کر رہے ہیں ایسی تفصیل ہے جو بعد میں وجود میں آئی ہے۔ ورنہ ابتدا میں قرآن بغیر اجزاء اور تفصیل کے تھا۔

اس سے واضح تر یہ آیات ہیں: "و لقد جئناهم بكتاب فصلناه على علم هدى و رحمة لقوم يؤمنون.هل ينظرون الا تاويله يوم ياتى تاويله يقول الذين نسوه من قبل قد جاءت رسل ربنا بالحق" (۱۴) .

"و ما كان هذا القرآن ان يفترى من دون الله، و لكن تصديق الذى بين يديه و تفصيل الكتاب لا ريب فيه من رب العالمين"یہاں تک کہ فرمایا: "بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه و لما ياتهم تاويله" (۱۵)

ان آیات سے مکمل طور پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن میں تفصیل اور اجزاء میں تقسیم بندی بعد میں انجام پائی ہے۔

پس کتاب کی حقیقت ایک چیز ہے اور جو تفصیل اس پر عارض ہوئی ہے وہ دوسری چیز ہے۔ اور کفار نے جو قرآن کی تکذیب کی ہے وہ اس کی تفصیل کے مربوط ہے۔

اس آیت میں اور واضح تر ارشاد ہوتا ہے : "حم و الكتاب المبين، انا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون و انه فى ام الكتاب لدينا لعلى حكيم" (۱۶) چونکہ یہ آیت اس معنی میں ظہور رکھتی ہے کہ قرآن پہلے ایک کتاب مبین کی شکل میں تھا جو پڑھنے کے قابل نہیں تھا لہذا بعد میں اسے عربی زبان میں پڑھنے کے قابل بنایا اور عربی زبان کے الفاظ کا لباس اسے پہنایا تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں ورنہ خدا کے نزدیک یہ ام الکتاب ہونے کے عنوان سے موجود رہی ہے وہ کتاب جس تک کسی کی رسائی ممکن نہیں تھی جو کتاب حکیم تھی یعنی قرآن کی طرح آیت آیت اور سورہ سورہ نہیں تھی۔ ۔۔۔۔

پس ان آیات : "بل هو قرآن مجيد فى لوح محفوظ" (۱۷) ، "شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن" (۱۸) ، "انا انزلناه فى ليلة القدر" (۱۹) ، "انا انزلناه فى ليلة مباركة" (۲۰) کو ایک جگہ جمع کرنے بعد یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک حقیقت ہے جو لوح محفوظ میں ہے وہ کتاب مبین ہے جو دفعی طریقے سے قلب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شب قدر کو نازل ہوئی اور یہ حقیقت جب تفصیلی طور پر عربی زبان میں پڑھنے کے قابل ہوئی تو اس کے لیے تئیس سال کا عرصہ درکار تھا جس میں دھیرے دھیرے بتدریج، مختلف زمان و مکان و مناسبتوں کے لحاظ سے یہی حقیقت قرآن کی صورت میں نازل ہوتی رہی۔

حوالہ جات

۱- سوره زخرف آيه 3"

۲- سوره اسراء آيه 106"

۳- سوره مجادله آيه 1"

۴- سوره جمعه آيه 11"

۵- سوره احزاب آيه 23"

۶- سوره دخان آيه 3"

۷- سوره قدر آيه 1"

۸- سوره بقره آيه 185

۹- سوره دخان آيه 3

۱۰- سوره قدر آيه 1

۱۱- سوره يونس آيه 24"

۱۲- سوره ص آيه 29"

۱۳- سوره هود آيه 1"

۱۴- سوره اعراف آيه 52 - 53"

۱۵- سوره يونس آيه 39 - 37"

۱۶- سوره زخرف آيه 1 - 4"

۱۷- سوره واقعه آيه 80"

۱۸- سوره بروج آيه 22"

۱۹- سوره بروج آيه 22"

۲۰۔سوره بقره آيه 185"

کیا مباھلہ کی کوئی شرط ہے؟

سوال

کیا مباھلہ کی کوئی شرط ہے؟ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جاسکتا ہے؟ کیا یقیناْ مباہلہ واقع ہوا ہے؟


سوال
کیا مباہلہ کے لئے کسی شرط کا ہونا ضروری ہے تا کہ کسی کے ساتھ مباھلہ انجام پائے ، یا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباھلہ کرسکتا ہے؟ مباھلہ کس سلسلہ میں کیا جاسکتا ہے؟ کیا تاریخ اسلام میں یقینا مباھلہ واقع ہوا ہے ؟ قرآن مجید کی آیات کے مطابق مباھلہ انجام پانے کے لیے جو کچھ رسول خدا )ص( کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی، مد مقابل فریق نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا، کیا یہ حقیقت ہے؟
اجمالی جواب
مباھلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا، تا کہ جو باطل پر ہے وہ غضب الہی سے دوچار ہوجائے اورجو حق پر ہے اس کی پہچان ہوجا ئے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جاتی ہے۔
مباھلہ ، ایک قسم کی دعا ہے اور اس کے خاص خصوصیات اور شرائط ہوتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
یہ کہ مباھلہ کرنے والا اپنے آپ کی تین دن تک اخلاقی اصلاح کرے روزہ رکھے اور غسل کرے اور جس کے ساتھ مباھلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ صحرا میں جائے اور پو پھٹنے سے سورج چڑھنے تک مباہلہ انجام پائے -
مباھلہ ، صرف پیغمبر اسلام )ص( کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ دوسرے مومنین بھی مباہلہ انجام دے سکتے ہیں اس لحاظ سے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور ہر شخص اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دین کے دشمنوں کے ساتھ مباھلہ انجام دے سکتا ہے البتہ جاننا چاھیئے کہ مباھلہ کے شرائط ، اخلاص اور خود اعتمادی جو مباھلہ کے لیے ضروری ہیں ہر شخص کے لیے آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاھیئے ممکن ہے اس صورت میں بر عکس نتیجہ نکلے .
ضمنا جاننا چاھیئے کہ مباھلہ ان دینی اختلافات اور تنازعوں سے مخصوص ہے کہ مد مقابل فریق منطقی اور علمی مباحث اور حق و حقیقت کو قبول نہ کرے اور اپنے باطل عقیدہ پر ھٹ دھرمی کا مظاھرہ کرے -
آیہ مباھلہ کی تفسیر کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ سر انجام پیغمبر اسلام )ص( کا مباھلہ پر امن صلح پر ختم ہوا ہے۔
تفصیلی جواب
چونکہ آپ کا سوال کئی حصوں پر مشتمل ہے، اس لئے ہم بھی ایک مختصر مقدمہ یبان کرنے کے بعد اسی ترتیب سے اس کا جواب دیں گے۔
لغت میں مباھلہ:
در اصل مباہلہ کا لفظ -- اھل کے وزن پر -- مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے ، اسے "باھل" کہتے ہیں ، اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
اصطلاح میں مباہلہ:
آیہ مباہلہ سے معلوم ہونے والا مباہلہ کا رسمی مفہوم دو اافراد کے ایک دوسرے پر نفرین کرنے کے معنی میں ہے، اس طرح کہ جو افراد کسی مذھبی مسئلہ پر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ، ایک جگہ پر اکٹھا ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں تضرع کی حالت میں درخواست کرتے ہیں کہ جھوٹے کو رسوا کرکے اس کو سزا دے ۔[1]
مباہلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر خداوند ممتعال کا غضب ، نازل ہوجائے اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ [2]
قدرتی بات ہے کہ مباھلہ کے طرفیین ، خدا کا اعتقاد رکھنے والے ہونے چاہئیں تا کہ ایسے کام کا اقدام کرسکیں ، کیوںکہ جو شخص خدا پرست نہ ہو ، وہ خداوند متعال سے کوئی درخواست نہیں کرسکتا ہے۔
لیکن آپ کے سوال میں بیان کئے گئے مطالب کی ترتیب سے آپ کا جواب حسب ذیل ہے:
۱۔ کیا مباھلہ کے لیے کوئی شرط ہے تاکہ کسی سے مباھلہ کیا جائے؟
جیسا کہ ہم نے مباھلہ کی تعریف میں کہا، مباہلہ ایک قسم کی دعا ہے ، اس لحاظ سے جو شرائط دعا کے لیے ذکر کئے گئے ہیں ، مباھلہ کے لئے بھی ضروری ہیں۔[3] لیکن چونکہ مباھلہ ایک خاص دعا ہے ، قدرتی طور پر اس کی خاص خصوصیات اور شرائط ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں"
الف: جو شخص مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ تین دن تک اپنے آپ کی اصلاح کرے۔
ب: روزہ رکھے
ج: غسل کرے،
د: جس کے ساتھ مباھلہ کرنا چاہتا ہے اس کے ھمراہ صحرا میں جائے
ھ مباھلہ انجام پانے کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔
و: اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو مد مقابل کے دائیں ہاتھ کی انگیوں میں ڈال دے۔
ز: اپنے سے شروع کرتے ہوئے کہے: خداوندا! تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے واقف ہے اور رحمان و رحیم ہے اگر میرے مد مقابل نے کسی حق سے انکار کیا ہو اور باطل دعویٰ کررہا ہو تو آسمان سے اس پر ایک بلا نازل کرنا اور اسے درد ناک عذاب سے دوچار کرنا!
اس کے بعد دوبارہ اسی دعا کو دہرائے اور کہے: اگر وہ شخص حق سے انکار کرکے باطل کا دعویٰ کررہا ہے تو اس پر آسمان سے ایک بلا نازل کرکے اسے عذاب سے دوچار کرنا [4]-
۲۔ لیکن آپ کا دوسرا سوال کہ ، کیا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباھلہ کرسکتا ہے؟ بہ الفاط دیگر ، کیا مباھلہ ایک عمومی حکم ہے یا پیغمبر اکرم )ص( کے خاص زمانہ سے مخصوص ہے؟
آیہ مباہلہ کی شان نزول کے پیش نظر ، مباہلہ کے مخاطب صرف پیغمبر اکرم )ص( ہیں شاید یہ کہا جائے کہ مباہلہ صرف پیغمبر اسلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے اور مباہلہ کو صرف پیغمبر کے زمانہ سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے مومنین بھی مباہلہ کرسکتے ہیں کیونکہ :
اولا: آیہ شریفہ کی شان نزول کی بناء پر آیت مخصوص نہیں ہوسکتی ہے،[5]
ثانیا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آیہ شریفہ مباھلہ تمام مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت کا حکم نہیں دیتی ہے بلکہ اس کے مخاطب صرف پیغمبر اسلام ہیں، لیکن یہ موضوع اس امر میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے کہ مباھلہ مخالفوں کے مقابلے میں ایک عمومی حکم ہو اور با ایمان افراد جن میں تقوی ، اور مکمل خدا پرستی ہو اگر ان کے استدلال کو مد مقابل ہٹ دھرمی سے جواب دے تو وہ مباھلہ کی دعوت دے سکتے ہیں[6]
ثالثاْ: اسلامی کتابوں میں نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق بھی اس حکم کی عمومیت معلوم ہوتی ہے، مرحوم کلینی نے اپنی کتاب کافی میں حضرت امام صادق {ص} سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اپ نے اپنے ایک صحابی سے مخاطب ہوکر فرمایا : " اگر مخالفوں نے آپ کی حق بات کو قبول نہ کیا تو انھیں مباھلہ کے لیے دعوت دینا [7] اس لحاظ سے اس کے قائل ہوسکتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اپنے ایمان کے دشمنوں سے مباھلہ کرسکتا ہے۔[8]
۳۔ لیکن جوآپ نے سوال کیا ہے کہ مباھلہ کس سلسلہ میں کیا جاسکتا ہے ؟ جیسا کہ مذکورہ مباھلہ سے متعلق آیہ شریفہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ مباھلہ دینی اور مذھبی اختلافات کو حل کرنے سے متعلق ہے کہ اگر یہ اختلافات گفتگو اور بحث و مباحثہ سے حل نہ ہوں اور مسئلہ انکار تک پہنچ جائے تو مباھلہ سے کام لیا جاتا ہے[9]-
۴۔ لیکن آپ کا آخری سوال کہ قرآن مجید کی آیات کے مطابق رسول خدا کی طرف سے حقیقت میں مباھلہ انجام نہیں پایا ہے کیونکہ مد مقابل نے مباھلہ کی تجویز کو قبول نہیں کیا ، کیا یہ حقیقت ہے؟
اس سوال کے جواب کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ھم اصل مباھلہ کو بیان کریں:
آیہ شریفہ کی شان نزول کے سلسلے میں نقل کیا گیا ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلی والی آیات نجران کے گروہ کے بارے میں نازل ہوِئی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور جب پیغمبر اسلام نے انھیں مباھلہ کے لیے دعوت دی تو نجران کے عیسائیوں نے دوسرے دن کی صبح تک آنحضرت {ص} سے مھلت مانگی اور نجران کی شخصیتوں کی طرف رجوع کرنے کے بعد، بڑے پادری ) ان کے بڑے عالم( نے کہا:
کل محمد )ص( کو دیکھنا ، اگر وہ اپنی اولاد اور خاندان کے ساتھ مباھلہ کے لیے آگئے تو ان سے مباھلہ کرنے سے ڈرنا۔ اور اگر اصحاب کے ساتھ آگئے تو مباھلہ کرنا ، کیونکہ اس صورت میں ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی، دوسرے دن جب صبح ہوئی ییغمبر )ص( تشریف لائے تو وہ حضرت علی بن ابیطالب )ع( کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور حسن )ع( و حسین )ع( ان کے آگے آگے چل رہے تھے اور حضرت زھراء )ع( ان کے پیچھے پیچھے تھیں، عیسائی بھی باہر آگئے اس وقت ان کے آگے ان کا پادری تھا، جب اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم ان چند افراد کے ہمراہ آرہے ہیں ، اس نے ان کے بارے میں پوچھا اور اسے جواب دیا گیا: کہ یہ ان کے چچیرے بھائی اور داماد ہیں جو آپ کے نزدیک محبوب ترین بندہ خدا ہیں اور یہ دو لڑکے آپ کی بیٹی اور علی کے بیٹے ہیں اور وہ جو ان خاتون آپ کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو آپ کے نزدیک عزیز ترین فرد ہیں- پادری سے کہا گیا کہ مباھلہ کے لیے آگے بڑھیں اس نے جواب میں کہا کہ : " نہیں ، میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو مباھلہ کے لیے سنجید گی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے اور میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں وہ راستگو نہ ہو اور اگر راست گو اور سچا ہو تو خدا کی قسم ایک سال کے اندر دنیا کے تمام عیسائیوں کی نسل ختم ہوجا ئے گی ،
پادری نے پیغمبر اکرم )ص( کی خدمت میں عرض کی:" اے ابو القاسم ، ہم اپ کے ساتھ مباھلہ نہیں کریں گے بلکہ صلح کریں گے اس لئے آپ ہمارے ساتھ صلح کریں۔ اس کے بعد آنحضرت )ص( نے ان کے ساتھ دو ہزار حلہ – اچھے کپڑے کا ایک ٹکرا – کہ ہر حلہ کی قیمت کم از کم چالیس درھم تھی ، اور تیس عدد زرہیں اورتیس نیزے ،اور تیس گھوڑے قرض کے طور پر حاصل کرکے صلح کی اور یہ شرط رکھی کہ سرزمین یمن میں مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کی جائے تو آنحضرت )ص( اس قرض کے ضامن ہوں گے تا کہ اسے واپس کریں اور اس سلسلہ میں ایک عھد نامہ تحریر کیا گیا۔ [10]
اس بنا پر نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مباھلہ کے تمام مقدمات انجام پا ئے تھے لیکن مد مقابل افراد پیغمبر کی خود اعتمادی سے ڈر گئے تھے اور حقیقت میں مباھلہ کے بغیر ہتھیار ڈال چکے تھے اس لئے مباھلہ کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ہمیں اسلام میں مباھلہ واقع ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔


[1] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج ‏2، ص 578، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش، طبع اول‏.
[2] دوانى، على، مهدى موعود-ترجمه جلد سيزدهم بحار، ص 636، ‏ناشر: دار الكتب الاسلاميه‏، تهران‏، 1378 ش‏، طبع: بيست و هشتم‏.
[3] ملاحظہ ہو سوال نمبر: 2622 (سایٹ: ur2785) (عنوان: شرایط استجابت حتمی دعا) و سوال نمبر: 2145 (سایٹ: 2269) (شرایط و راه های استجابت دعا)
[4] كمره‏اى، محمد باقر ، اصول كافى-ترجمه كمره‏اى، ج 2، ص 513 و 514، ج ‏6، ص 145، ناشر: انتشارات اسوه، قم‏، 1375 ش،طبع سوم‏.
[5] المورد لا یخصص الوارد، حکیم، سید محسن، حقائق‏الأصول، ج 2، ص 412، ناشر بصیرتی، 1408 هـ
[6] مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج ‏2، ص 589.
[7] کلینی، الكافي، ج 2، ص 513
[8] یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اگر چہ قرآن مجید میں پیغمبر اسلام کے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ کا موضوع بیان ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان شوہر کی طرف سے بیویوں پر بیگانہ مرد کے ساتھ عصمت فروشی کی تہمت جسے فقھی اصطلاع میں ملاعنہ کہا جاتا ہے کے سلسلہ میں پیدا ہوئے اختلفاف کے بارے میں ایک قسم کا مباھلہ ہے جو کچھ شرائط کے ساتھ جامع الشرائط حاکم شرع کے سامنے انجام پاتا ہے۔
[9] اصول كافى-ترجمه كمره‏اى، ج ‏6، ص 629.
[10] رازی، ابو عبد الله فخرالدین محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج ‏8، ص 248 یہ شان نزول کچھ فرق کے ساتھ احادیث اور تفسير کی کتابوں میں آئی ہے جیسے : صحیح مسلم، جزء 12، ص 129، ش 4420؛ سنن ترمذی، جزء 10، ص 260، ش 2925 و جزءالورد 12، ص 187، ش 3658؛ مسند احمد، جزء 4، ص 32، ش 1422؛ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، جزء 11، ص 26، ش 4702، وہ کہتے ہیں کہ شیخین کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے۔ ؛ اور انوار التنزيل و أسرار التأويل، ج‏2، ص: 20 و نیز معجم کبیر طبری؛ صحیح ابن حیان، مشکل الآثار طحاوی؛ ابو الفتوح رازى، و تفسير كبير میں ائی ہے ، فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں امام حسن )ع( و فاطمہ و علی کے بارے میں آیہ تطہیرکی شان نزول کے بعد کہتے ہیں : علمائے تفسیر کے درمیان یہ روایت متفقہ ہے۔

قرآن مجید میں "بروج" سے کیا مراد ہے؟

سوال

قرآن مجید میں "بروج" سے کیا مراد ہے؟

جواب

قرآن مجید کی جن آیات میں لفظ "بروج" آیا ہے، ان آیات کے بظاہر معنی یہ ہیں کہ خداوندمتعال فرماتا ہے: " اور ہم نے آسمان {زمین کے اوپر والی جہت} میں بروج اور قصر{کہ وہ سورج اور چاند ہیں} بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کردیا۔"
یہ لفظ بھی اپنے قدیمی معنی، کہ وہی برج اور مستحکم و محصور قلعے ہیں، میں استعمال ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کو استعمال کیا گیا ہے، اور آج کل کے فلک بوس برجوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے، جو پوری دنیا میں خاص زینت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

تفصیلی جوابات
لفظ "بروج" ، "برج" کی جمع ہے اس کے معنی وہ بلند ٹاور ہیں، جو قلعوں کے چار کونوں پر تعمیر کیے جاتے ہیں تاکہ ان ٹاوروں سے دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے اور اسے بھگا دیں۔ اس لفظ کے اصلی معنی ظہور ہے اور " التبرج بالزینتہ" یعنی اظہار زینت ہے[1]۔ اس طرح اس کے معنی ہر وہ چیز ہے جو معلوم و ظاہر ہو۔ اگر اسے زیادہ تر خوبصورت محلوںمیں استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ اس لیے ہے کہ محل، دیکھنے والوں کے لیے نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں[2]۔ اور آیہ شریفہ سے بھی یہی معنی مراد ہے کہ ارشاد ہوتا ہے : "وَلَقَدْجَعَلْنافِیالسَّماءِبُرُوجاًوَزَيَّنَّاهالِلنَّاظِرِينَ..."[3]
آیہ شریفہ " والسماء ذات البروج" میں آسمان کی قسم کھائی گئی ہے جو برجوں {سورج اور چاند}[4] میںمحفوظ کیا جاتا ہے[5]۔
اس بنا پر، جن آیات میں "بروج" آیا ہے کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ : " ہم نے آسمان {زمین کے اوپر والی جہت} میں بروج اور قصر {کہ وہی سورج اور چاند کے مقام ہیں} بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کردیا۔[6]" البتہ بعض مفسرین نے "بروج" کے وہی علم نجوم کے سال کے بارہ اصطلاحی برجوں کے معنی لیے ہیں[7]۔
آیہ شریفہ: "أَيْنَما تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فی‏ بُرُوجٍ مُشَيَّدَة[8]" حقیقت میں مثال ہے، اور قرآن مجید ان چیزوں کی مثال پیش کرنا چاہتا ہے کہ انسان ان سے اپنے آپ کو نامناسب حالات اور خطرات سے محفوظ رکھے، اور اس کے یہ معنی ہیں کہ موت ایک ایسا مقدر ہے کہ کوئی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے، اگرچہ اس سے بچنے کے لیے مضبوط ترین پناہ گاہوں میں بھی پناہ لے لے[9]۔
کوئی چیز، حتی کہ مستحکم بروج بھی موت کو نہیں روک سکتے ہیں، اس کی وجہ بھی ظاہر ہے، کیونکہ موت، تصور کے برخلاف، انسان کے باہر سے نفوذ نہیں کرتی ہے، بلکہ عام طور سے اس کا سرچشمہ انسان کے اندر ہوتا ہے، کیوں کہ بدن کے مختلف نظام خواہ نخواہ محدود ہوتے ہیں اور ایک دن ختم ہو جاتے ہیں، لیکن غیر طبیعی موتیں انسان کے باہر سے آتی ہیں اور طبیعی موت اندر سے، لہذٰا، مستحکم برج اور استوار قلعے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے ہیں۔ صحیح ہے کہ مستحکم قلعے کبھی غیر طبیعی موت کو روکتے ہیں، لیکن آخرکار کسی اور دن طبیعی موت سے انسان دوچار ہوتا ہے[10]۔
خلاصہ یہ کہ یہ لفظ بھی اپنے قدیمی معنی، کہ وہی برج اور مستحکم و محصور قلعے ہیں، میں استعمال ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کو استعمال کیا گیا ہے، اور آج کل کے فلک بوس برجوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے، جو پوری دنیا میں خاص زینت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

[1]. طباطبائی، سید محمد حسین، الميزان فی تفسیر القرآن، ترجمه، موسوی، سید محمد باقر، ج ‏5، ص 6، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1374ھ ش.
[2]. ایضاً، ج 20، ص 413.
[3]. حجر، 16.
[4]. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، محقق و مصحح: حسینی، سید احمد، ج 2، ص 276، نشر کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع سوم، 1416ھ.
[5]. ترجمه الميزان فی تفسیر القرآن، ج 20، ص 413.
[6]. طبع، ج‏12، ص 202؛ مجمع البحرین، ج 2، ص 276.
[7]. آلوسى، سيد محمود، روح المعانى فى تفسير القرآن العظيم، تحقيق: عطية، على عبدالبارى، ج 15، ص 294، دارالكتب العلمية، بیروت، طبع اول، 1415ھ.
[8] نساء، 78: " تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پا لے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہو جاو۔".
[9] ترجمه الميزان فی تفسیر القرآن، ج ‏5، ص 6.
[10] مکارم شیرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 4، ص 19، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374 ھ ش.

 

کيا تمام انساني علوم قرآن ميں موجود ہيں؟

سوال 

کيا تمام انساني علوم قرآن ميں موجود ہيں؟

جواب

اس سے قبل کہ ہم مذکورہ سوال کے بارے ميں سير حاصل بحث و گفتگو کريں، يہاں مقدمہ کي طور پر علم کے معاني اور اس کي اقسام کي طرف مختصر اشارہ کرنا ضروري سمجھتے ہيں، تاکہ اس سوال ''کيا تمام انساني علوم، قرآن مجيد ميں موجود ہيں؟'' کے جواب ميں کوئي ابہام باقي نہ رہ جائے۔
علم کے معني:
لغت ميں علم کے معني: دانش، دانائي، آگاہي ...کے ہيں(١)۔ اور لفظ ''علوم'' علم کي جمع ہے، اصطلاح ميں ''علم'' کي مختلف تعابيرات ملتي ہيں، يعني علم کي متعدد اصطلاحات ہيں۔ ليکن ہماري چونکہ(قرآن اور سائنس) تفسير علمي(٢) سے ہے لہٰذا يہاں علم سے مراد: حقيقي قضايا کے ايسے مجموعے ہيں جو تجربہ(حسي) کے ذريعے قابل اثبات ہوں يعني حسي تجربہ اور مشاہدے کے ذريعے قوانين طبيعت کے ادراک کو علم کہتے ہيں۔
علم کي اقسام:
علم کي کئي اقسام بيان کي گئي ہيں۔ ان ميں سے يہاں پر ہم صرف چند ايک کي طرف اشارہ کريں گے(٣):
١) ''فارابي''(٤) نے علوم کو پانچ گروہ ميں تقسيم کيا ہے: الف) علم لسان، ب) علم منطق، ج) علم تعليم(مثلاً عدد....)، د) علم طبيعي و علم الہٰي، ہ) علم مدني، فقہ و کلام
٢) حکمائے اسلام نے علوم کو مندرجہ ذيل اقسام ميں تقسيم کيا ہے: حکمت نظري و عملي
حکمت نظري کي تين قسميں ہيں: الف) علم اعليٰ (الہيات)، ب) علم سفليٰ (طبعيات)، ج) علم وسطيٰ (رياضيات)
حکمت عملي کي بھي تين قسميں ہيں: الف) علم اخلاق، ب) علم سياست (اصلاح معاشرہ)،
ج) تدبير منزل (اصلاح خانوادہ)
٣) عصر جديد ميں معمولاً علم کي اقسام يوں کي گئي ہيں: الف) علوم رياضي، ب) علوم طبيعي (فيزيکس،کميسٹري....)، ج) علوم اخلاق
٤) ''روش'' کے اعتبار سے علوم انساني کو چہار گروہ ميں تقسيم کيا گيا ہے جن کي تفصيل کچھ يوں ہے: الف) علوم تجربي: ۱) علوم طبيعي مثلاً فيزيکس، کميسٹري۔ ٢) علوم انساني مثلاً جامعہ شناسي، اقتصاد ۔ ب) علوم عقلي: ١) علوم منطق، رياضيات، ٢) وجود کے بارے ميں علم جيسے فلسفہ۔ ج) علوم نقلي:علم تاريخ، لغت... ۔ د) علم شہودي: يہ علوم، علم حضوري کے ذريعے حاصل ہوتے ہيں۔ مثلاً پيامبران و عرفاء کا علم ....
٥) ''مور'' جس کا شمار قرن ٢۰ کے دانشمندوں ميں ہوتا ہے وہ علوم کو دو حصوں ميں تقسيم کرتا ہے: الف) عقلي ب) تجربي
اس مقدماتي بحث سے يہ واضح ہوجاتا ہے کہ علم کي مختلف اقسام بيان کي گئي ہيں جن ميں سے ہر ايک قسم پر تحقيقي نظر ڈالنا في الحال ہمارے ملحوظ نظر نہيں ہے،لہٰذا ہم علوم کي تمام اقسام پر گفتگو کسي اور وقت کريں گے۔ في الحال اپنے اصلي سوال کي جانب آتے ہيں کہ ان تمام علوم کي قسموں ميں سے کون سے علوم، قرآن کريم ميں پائے جاتے ہيں؟ کيا يہ سچ ہے کہ تمام علوم انساني قرآن مجيد ميں موجود ہيں؟ اور﴿وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ﴾(٥) سے ہم اپنے مدعا کو ثابت کرسکتے ہيں؟ يا پھر "لاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ" سے کچھ اور مراد ہے اور علماء نے اس کي کچھ اور تفسير بيان کي ہے؟
اس ميں کوئي شک و شبہ نہيں ہے کہ قرآن کريم پيامبراسلام(ص) کا دائمي اور زندہ معجزہ ہے اور اس کے اعجاز کے مختلف پہلوؤں ميں سے اب تک سينکڑوں پہلو ثابت ہوئے ہيں اور ہو رہے ہيں، ان ہي ميں سے ايک ''علمي'' پہلو ہے جوکہ عصر حاضر ميں بہت نماياں ہے،اور زبان زد عام وخاص ہے۔يہ''علمي'' پہلو اس عصر ميں رونما ہوا جب ساري دنيا تاريکي ميں ڈوبي ہوئي، خواب غفلت ميں سو رہي تھي۔ لوگ خيالات واوہام کي زندگي بسر کررہے تھے، حتيٰ جو افراد علمي نظريہ پيش کرتے تھے،ان پر کفر کا فتويٰ لگاکر ان کے خلاف عدالتي کاروائي ہوتي تھي اور انہيں زندان ميں ڈال ديا جاتا تھا(٦)۔اب يہاں يہ سوال پپدا ہوتا ہے کہ کيا تمام انساني علوم معارف اپني تمام ترجزئيات کے ساتھ قرآن کريم ميں نہفتہ ہيں جوکہ وقفہ وقفہ سے دانشمندحضرات کے ذريعے انکشاف ہوتے رہتے ہيں؟يا يہ کہ قرآن کريم بہت سے علوم کا مبدا و منشاء ہے اور اس ميں علم و علماء کي بہت تاکيدکي گئي ہے، ليکن يہ کوئي فيزيکس يا کميسٹري کي کتاب نہيں ہے بلکہ يہ انسانوں کي ہدايت کي کتاب ہے جس ميں علوم و معارف کي ترغيب دلائي گئي ہے؟(٧)۔
اس سوال کے جواب ميں دو نظريہ پائے جاتے ہيں: ايک يہ کہ جي ہاں، قرآن کريم ميں تمام انساني علوم ومعارف موجود ہيں۔دوسرا يہ کہ نہيں،قرآن کريم ميں تمام انساني علوم اپني تمام تر جزئيات کے ساتھ ذکر نہيں ہوئے ہيں۔ 
ہر ايک نظريہ کے قائل اور طرفدار اپنے مدعي کو ثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل و شواہد پيش کرتے ہيں، يہاں پر ہم پہلا نظريہ پر ايک سرسري نظر ڈاليں گے۔
پہلا نظريہ:
وہ افراد جو اس نظريہ کے قائل ہيں کہ قرآن کريم ميں تمام علوم و معارف موجود ہيں، ان کے دلائل حسب ذيل ہيں:
۱۔ ظواہر آيات: قرآن کريم کي بعض آيات کے ظواہر سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ميں تمام علوم انساني موجود ہيں، وہ آيات يہ ہيں:
الف: ﴿وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ﴾(٨)۔ "اور نہ ہي خشک و تر وجود رکھتي ہے،مگر يہ کہ وہ واضح کتاب (کتاب علم خدا) ميں ثابت ہے۔"
ب: ﴿مَّا فَرَّطْنَا فِي الکِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾(٩)۔ "ہم نے کسي چيز کو اس کتاب ميں فرو گذاشت نہيں کيا ہے۔"
ج: ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ﴾(١٠)۔ "اور يہ ايسي کتاب(قرآن) ہم نے آپ پر اتاري ہے جو ہر چيز کو واضح کرتي ہے۔"
ان آيات کي روشني ميں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کريم ميں خلقت و آفرينش کے تمام اسرار نہفتہ ہيں، درنتيجہ قرآن مجيد ميں تمام علوم موجود ہيں جو کہ قرآن کريم سے ہي الہام حاصل ہوتے ہيں، حتيٰ علم کميسٹري، علم رياضي.... بھي قرآن مجيد سے لئے گئے ہيں۔اب اگر ہم ان تمام علوم کو اخذ نہيں کرسکتے اس کي وجہ يہ ہے کہ ہماري عقليں ان کو استخراج کرنے سے قاصر ہيں،في الحال ہماري عقليں انہيں درک نہيں کرسکتيں،البتہ مستقبل نزديک ميں جب انسان مزيد ترقي کي طرف کامران ہوگا تو پھر وہ ان تمام (علوم کو جوکہ قرآن مجيد ميں موجود ہيں) کو استخراج کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
٢۔ دوسري دليل اس پرکہ تمام انساني علوم ،قرآن کريم ميں موجود ہيں وہ يہ کہ قرآن مجيد ميں بعض ايسي آيات موجود ہيں جوکہ بعض علوم کي طرف اشارہ کرتي ہيں ازجملہ:
الف) علوم رياضي:﴿وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَکَفَى بِنَا حَاسِبِينَ﴾(١١)۔"اور اگر کسي نے رائي برابر بھي کوئي نيکي يا برائي کي ہوگي تو ہم اس کو ضرور حاضر کرديں گے اور اس کے لئے يہي کافي ہے کہ حساب کرنے والے ہم ہوں گے۔"
چونکہ اس آيت شريفہ ميں حساب واندازہ کا ذکر موجود ہے،لذا اس آيت شريفہ کا علوم رياضي کي طرف اشارہ ہے۔
ب) ميکانيکي تعليمات(Machenical) اور علم حياتيات(Biology): ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْکَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ﴾(١٢)۔ "اور(اس طرح)اس نے گھوڑوں،خچروں اورگدھوں کو (خلق فرمايا) تاکہ ان پر سواري کرو اور وہ تمہاري زينت بنيں اور وہ کئي ايک چيزيں خلق کرے گا جسے تم نہيں جانتے۔"
يہ آيت وسايل نقل وانتقال (ٹرانسپورٹيشن) (Transportation) کي طرف اشارہ کررہي ہے،ان وسائل سے زمانہ جاہليت کے اعراب آگاہ نہ تھے اور چونکہ آج کا زمانہ جديد ٹيکنولوجي (Technology) کا زمانہ ہے لذا عصر حاضر ميں وسائل نقل وانتقال سے مراد جہاز، گاڑي، کار.... ہے ۔
ج) وہ آيات کريمہ جن ميں حضرت ابراہيم کا ذکر موجود ہے کہ آپ نے چار پرندوں کو ذبح کيا اور ان کے ٹکڑوں کو چار مختلف پہاڑوں پر رکھ ديا،اس کے بعد وہ پرندے خدا کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوئے(١٣)، يہ آيات علوم کميسٹري پر دلالت کرتي ہے، چونکہ ان آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ترکيبات واجزاء وغيرہ بھي مورد توجہ قرآن کريم ہيں،اور آج علم جديد ميں ان اجزاء و ترکيبات کو علم "کميسٹري'' سے تعبير کيا جاتا ہے ۔
د) علم ہندسہ:﴿رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ﴾(١٤)۔
اس آيت شريفہ ميں علم ہندسہ کي طرف اشارہ موجود ہے،کيونکہ يہ آيت اس پر دلالت کرتي ہے کہ خداوندکريم نے درجات کو بہت اہميت دي ہے، اور يہ کہ اعداد ابجد کے حساب سے رفيع کا عدد ''٣٦٠'' ہے اور آيت ميں ''درجات'' سے مراد ''درجہ''ہے علاوہ از اين محيط کا مدار بھي ٣٦٠ درجہ ہے در نتيجہ آيت مذکورہ ميں علم ہندسہ کي طرف اشارہ موجود ہے۔
ھ) علم طب:﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾(١۵)۔ "اور جب ميں بيمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا بھي ديتا ہے۔"
پہلا نظريہ کے بقول: ان آيات کي روشني ميں ہم اس نتيجہ تک پہنچ سکتے ہيں کہ اگر چہ قرآن کريم ميں کميسٹري،رياضي و.....کے خاص فرمولے موجود نہيں ہيں،ليکن قرآن مجيد ميں يہ ضرور ہے کہ بعض قرآني آيات ميں جو علمي اشارے موجودہيں،ان کي مدد سے ہم ديگر فرمولے کا استخراج کرسکتے ہيں، درنتيجہ قرآن مجيد ميں تمام انساني علوم نہفتہ ہيں۔
۳۔ تيسري دليل اس پر کہ تمام علوم قرآن مجيد ميں موجود ہيں:
بعض روايات اس بارے ميں منقول ہوئي ہيں جو اس پر تاکيد کرتيں ہيں کہ قرآن کريم ميں تمام انساني علوم بيان ہوئے ہيں۔علاوہ از اين آئمہ(ع) نے مختلف علوم وفنون(ازجملہ علم طب،...) کے بارے ميں بحث و گفتگو کي ہے اور ان کا ارشاد بھي ہے کہ: ہمارے تمام علوم کي بنياد قرآن کريم ہے۔ يعني ہم جو کچھ کہتے ہيں وہ قرآن کريم سے ہي ہوتا ہے۔
لذا اس نظريہ کي بناء پر ہم اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں کہ تمام علوم کا سرچشمہ قرآن حکيم ہے ،اور ان علوم سے صرف خاص افراد آگاہ ہيں۔ يہاں پر ہم نمونہ کے طور ان چند روايات کي طرف اشارہ کريں گے جن سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن مجيد ميں تمام علوم انساني موجودہيں، وہ روايات يہ ہيں:
الف) امام محمدباقر (ع) فرماتے ہيں: "ان اﷲ تبارک وتعاليٰ لم يدع شيئاً تحتاج اليه الامة الا نزله في کتابه وبينه لرسوله"(١٦)۔ "مسلمان امت کو جن چيزوں کي ضرورت ہے،خداوند نے ان کو فراموش نہيں کيا ہے۔ان تمام اشياء کو جو مسلمانوں کيلئے ضروري ہيں،قرآن کريم ميں نازل کيا ہے اور پيامبر (ص) کے لئے بھي بيان کيا ہے۔"
ب) ابي عبداﷲ (ع) سے روايت ہے کہ: "اني لاعلم في السمٰوات وما في الارض واعلم ما في الجنة واعلم ما کان وما يکون قال ثم مکث ھنيئة فرأي ان ذلک کبر عليٰ من سمعه منه فقال: علمت ذلک من کتاب اﷲ عزوجل ان اﷲ عزوجل يقول:فيه تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ"(١٧)۔ "ميں زمين و آسمان کے (درميان) جو کچھ ہے اس سے آگاہ ہوں،اور ہر وہ چيز جو جنت اور جہنم ميں ہے،اس کے بارے ميں جانتا ہوں اور جو کچھ وقوع پذير ہوا ہے اور ہوگا،ان سب کے بارے ميں علم رکھتا ہوں۔اس کے بعد آپ نے کچھ دير توقف کيا اور متوجہ ہوئے کہ آپ کے مخاطبين کے لئے يہ مطالب سنگين ہيں،تو آپ نے فرمايا: ميں اس سے بھي آگاہ ہوں کہ خدا نے فرمايا ہے کہ:''قرآن مجيد ميں تمام چيزوں کو بيان کيا گيا ہے۔"
۴۔ چوتھي اور آخري دليل اس پرکہ تمام علوم انساني قرآن مجيد ميں بيان کئے گئے ہيں وہ مسئلہ ''بطون قرآن ''سے متعلق ہے۔ چونکہ بہت سي روايات ميں آيا ہے کہ قرآن کے کئي بطون ہيں اور يہ کہ ہر آيت کا ايک بطن ہے(١٨)۔ پس درنتيجہ قرآن کريم کا اعجاز يہ ہے کہ ہر کوئي ايک آيت سے ايک معاني سمجھتا ہے اور اس آيت کے بطن سے آگاہ ہوتا ہے۔عارف، فقيہ، فيلسوف، کيميادان... ہر کوئي مختلف معاني سے جوکہ دوسرا اس سے غافل ہوتا ہے،سے آگاہ ہوتے ہيں ۔پس دوسروں کو اس کے سمجھے ہوئے معاني سے منع نہيں کرنا چاہيے، کيونکہ بالفرض اگر وہ فيلسوف کي جگہ مثلا ايک کيميادان ہوتا تو وہ بھي يہ ہي معني(جوکہ کيميادان سمجھ رہا ہے) سمجھتا۔
الغرض(نظريہ اول کے مطابق) ہم ان دلائل کي روشني ميں اس نتيجہ تک پہنچتے ہيں کہ قرآن کريم ميں تمام انساني علوم ومعارف بيان ہوئے ہيں۔

 

منابع اور مآخذ:

١) فيروز اللغات اردو، ص٩٠٢۔ 
٢) ايسي تفسير جس ميں سائنسي پہلو بيان کيئے جائيں۔ 
٣) يہ بحث ڈاکٹر محمد علي رضائي کي کتاب سے لي گئي ہے۔ 
٤) فارابي کا شمار اسلامي دانشمندوں ميں ہوتا ہے۔ مزيد اطلاع کے لئے ملاحظہ فرمائيں: A History of muslim philosophy vol.۱ p. ۷۱٢,۱۹۹۳Delhi
٥) انعام، آيت ٥٩۔ 
۶) مزيد اطلاع کے لئے ملاحظہ فرمائيں: A History of european morals, A histrory of civilization,will durrant
٧) ہديٰ نمبر ٤ ميں''قرآن کريم ميں علم کي اہميت'' کے عنوان سے بحث ہوچکي ہے۔ 
٨) انعام، آيت ٥٩۔ 
٩) انعام، آيت ٣٨۔ 
١٠) نحل، آيت ٨٩ ۔ 
۱۱) انبيائ، آيت ۴۷۔ 
١٢) نحل، آيت ٨۔ 
١٣) بقرہ، آيت ٢٦٠ ۔ 
١٤) غافر، آيت ١٥۔ 
١٥) شعرائ، آيت ٨٠ ۔ 
١٦) تفسير نورالثقلين، ج٣ ص٧٤ ۔ 
۱۷) اصول کافي ج١ص٣٨٨حديث دوم۔ 
۱۸) ميزان الحکمة، ج٨ ص٩٤، ٩٥۔

Publish modules to the "offcanvas" position.