کيا تمام انساني علوم قرآن ميں موجود ہيں؟

سوال 

کيا تمام انساني علوم قرآن ميں موجود ہيں؟

جواب

اس سے قبل کہ ہم مذکورہ سوال کے بارے ميں سير حاصل بحث و گفتگو کريں، يہاں مقدمہ کي طور پر علم کے معاني اور اس کي اقسام کي طرف مختصر اشارہ کرنا ضروري سمجھتے ہيں، تاکہ اس سوال ''کيا تمام انساني علوم، قرآن مجيد ميں موجود ہيں؟'' کے جواب ميں کوئي ابہام باقي نہ رہ جائے۔
علم کے معني:
لغت ميں علم کے معني: دانش، دانائي، آگاہي ...کے ہيں(١)۔ اور لفظ ''علوم'' علم کي جمع ہے، اصطلاح ميں ''علم'' کي مختلف تعابيرات ملتي ہيں، يعني علم کي متعدد اصطلاحات ہيں۔ ليکن ہماري چونکہ(قرآن اور سائنس) تفسير علمي(٢) سے ہے لہٰذا يہاں علم سے مراد: حقيقي قضايا کے ايسے مجموعے ہيں جو تجربہ(حسي) کے ذريعے قابل اثبات ہوں يعني حسي تجربہ اور مشاہدے کے ذريعے قوانين طبيعت کے ادراک کو علم کہتے ہيں۔
علم کي اقسام:
علم کي کئي اقسام بيان کي گئي ہيں۔ ان ميں سے يہاں پر ہم صرف چند ايک کي طرف اشارہ کريں گے(٣):
١) ''فارابي''(٤) نے علوم کو پانچ گروہ ميں تقسيم کيا ہے: الف) علم لسان، ب) علم منطق، ج) علم تعليم(مثلاً عدد....)، د) علم طبيعي و علم الہٰي، ہ) علم مدني، فقہ و کلام
٢) حکمائے اسلام نے علوم کو مندرجہ ذيل اقسام ميں تقسيم کيا ہے: حکمت نظري و عملي
حکمت نظري کي تين قسميں ہيں: الف) علم اعليٰ (الہيات)، ب) علم سفليٰ (طبعيات)، ج) علم وسطيٰ (رياضيات)
حکمت عملي کي بھي تين قسميں ہيں: الف) علم اخلاق، ب) علم سياست (اصلاح معاشرہ)،
ج) تدبير منزل (اصلاح خانوادہ)
٣) عصر جديد ميں معمولاً علم کي اقسام يوں کي گئي ہيں: الف) علوم رياضي، ب) علوم طبيعي (فيزيکس،کميسٹري....)، ج) علوم اخلاق
٤) ''روش'' کے اعتبار سے علوم انساني کو چہار گروہ ميں تقسيم کيا گيا ہے جن کي تفصيل کچھ يوں ہے: الف) علوم تجربي: ۱) علوم طبيعي مثلاً فيزيکس، کميسٹري۔ ٢) علوم انساني مثلاً جامعہ شناسي، اقتصاد ۔ ب) علوم عقلي: ١) علوم منطق، رياضيات، ٢) وجود کے بارے ميں علم جيسے فلسفہ۔ ج) علوم نقلي:علم تاريخ، لغت... ۔ د) علم شہودي: يہ علوم، علم حضوري کے ذريعے حاصل ہوتے ہيں۔ مثلاً پيامبران و عرفاء کا علم ....
٥) ''مور'' جس کا شمار قرن ٢۰ کے دانشمندوں ميں ہوتا ہے وہ علوم کو دو حصوں ميں تقسيم کرتا ہے: الف) عقلي ب) تجربي
اس مقدماتي بحث سے يہ واضح ہوجاتا ہے کہ علم کي مختلف اقسام بيان کي گئي ہيں جن ميں سے ہر ايک قسم پر تحقيقي نظر ڈالنا في الحال ہمارے ملحوظ نظر نہيں ہے،لہٰذا ہم علوم کي تمام اقسام پر گفتگو کسي اور وقت کريں گے۔ في الحال اپنے اصلي سوال کي جانب آتے ہيں کہ ان تمام علوم کي قسموں ميں سے کون سے علوم، قرآن کريم ميں پائے جاتے ہيں؟ کيا يہ سچ ہے کہ تمام علوم انساني قرآن مجيد ميں موجود ہيں؟ اور﴿وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ﴾(٥) سے ہم اپنے مدعا کو ثابت کرسکتے ہيں؟ يا پھر "لاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ" سے کچھ اور مراد ہے اور علماء نے اس کي کچھ اور تفسير بيان کي ہے؟
اس ميں کوئي شک و شبہ نہيں ہے کہ قرآن کريم پيامبراسلام(ص) کا دائمي اور زندہ معجزہ ہے اور اس کے اعجاز کے مختلف پہلوؤں ميں سے اب تک سينکڑوں پہلو ثابت ہوئے ہيں اور ہو رہے ہيں، ان ہي ميں سے ايک ''علمي'' پہلو ہے جوکہ عصر حاضر ميں بہت نماياں ہے،اور زبان زد عام وخاص ہے۔يہ''علمي'' پہلو اس عصر ميں رونما ہوا جب ساري دنيا تاريکي ميں ڈوبي ہوئي، خواب غفلت ميں سو رہي تھي۔ لوگ خيالات واوہام کي زندگي بسر کررہے تھے، حتيٰ جو افراد علمي نظريہ پيش کرتے تھے،ان پر کفر کا فتويٰ لگاکر ان کے خلاف عدالتي کاروائي ہوتي تھي اور انہيں زندان ميں ڈال ديا جاتا تھا(٦)۔اب يہاں يہ سوال پپدا ہوتا ہے کہ کيا تمام انساني علوم معارف اپني تمام ترجزئيات کے ساتھ قرآن کريم ميں نہفتہ ہيں جوکہ وقفہ وقفہ سے دانشمندحضرات کے ذريعے انکشاف ہوتے رہتے ہيں؟يا يہ کہ قرآن کريم بہت سے علوم کا مبدا و منشاء ہے اور اس ميں علم و علماء کي بہت تاکيدکي گئي ہے، ليکن يہ کوئي فيزيکس يا کميسٹري کي کتاب نہيں ہے بلکہ يہ انسانوں کي ہدايت کي کتاب ہے جس ميں علوم و معارف کي ترغيب دلائي گئي ہے؟(٧)۔
اس سوال کے جواب ميں دو نظريہ پائے جاتے ہيں: ايک يہ کہ جي ہاں، قرآن کريم ميں تمام انساني علوم ومعارف موجود ہيں۔دوسرا يہ کہ نہيں،قرآن کريم ميں تمام انساني علوم اپني تمام تر جزئيات کے ساتھ ذکر نہيں ہوئے ہيں۔ 
ہر ايک نظريہ کے قائل اور طرفدار اپنے مدعي کو ثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل و شواہد پيش کرتے ہيں، يہاں پر ہم پہلا نظريہ پر ايک سرسري نظر ڈاليں گے۔
پہلا نظريہ:
وہ افراد جو اس نظريہ کے قائل ہيں کہ قرآن کريم ميں تمام علوم و معارف موجود ہيں، ان کے دلائل حسب ذيل ہيں:
۱۔ ظواہر آيات: قرآن کريم کي بعض آيات کے ظواہر سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ميں تمام علوم انساني موجود ہيں، وہ آيات يہ ہيں:
الف: ﴿وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي کِتَابٍ مُّبِينٍ﴾(٨)۔ "اور نہ ہي خشک و تر وجود رکھتي ہے،مگر يہ کہ وہ واضح کتاب (کتاب علم خدا) ميں ثابت ہے۔"
ب: ﴿مَّا فَرَّطْنَا فِي الکِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾(٩)۔ "ہم نے کسي چيز کو اس کتاب ميں فرو گذاشت نہيں کيا ہے۔"
ج: ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ﴾(١٠)۔ "اور يہ ايسي کتاب(قرآن) ہم نے آپ پر اتاري ہے جو ہر چيز کو واضح کرتي ہے۔"
ان آيات کي روشني ميں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کريم ميں خلقت و آفرينش کے تمام اسرار نہفتہ ہيں، درنتيجہ قرآن مجيد ميں تمام علوم موجود ہيں جو کہ قرآن کريم سے ہي الہام حاصل ہوتے ہيں، حتيٰ علم کميسٹري، علم رياضي.... بھي قرآن مجيد سے لئے گئے ہيں۔اب اگر ہم ان تمام علوم کو اخذ نہيں کرسکتے اس کي وجہ يہ ہے کہ ہماري عقليں ان کو استخراج کرنے سے قاصر ہيں،في الحال ہماري عقليں انہيں درک نہيں کرسکتيں،البتہ مستقبل نزديک ميں جب انسان مزيد ترقي کي طرف کامران ہوگا تو پھر وہ ان تمام (علوم کو جوکہ قرآن مجيد ميں موجود ہيں) کو استخراج کرنے کے قابل ہوجائے گا۔
٢۔ دوسري دليل اس پرکہ تمام انساني علوم ،قرآن کريم ميں موجود ہيں وہ يہ کہ قرآن مجيد ميں بعض ايسي آيات موجود ہيں جوکہ بعض علوم کي طرف اشارہ کرتي ہيں ازجملہ:
الف) علوم رياضي:﴿وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَکَفَى بِنَا حَاسِبِينَ﴾(١١)۔"اور اگر کسي نے رائي برابر بھي کوئي نيکي يا برائي کي ہوگي تو ہم اس کو ضرور حاضر کرديں گے اور اس کے لئے يہي کافي ہے کہ حساب کرنے والے ہم ہوں گے۔"
چونکہ اس آيت شريفہ ميں حساب واندازہ کا ذکر موجود ہے،لذا اس آيت شريفہ کا علوم رياضي کي طرف اشارہ ہے۔
ب) ميکانيکي تعليمات(Machenical) اور علم حياتيات(Biology): ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْکَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ﴾(١٢)۔ "اور(اس طرح)اس نے گھوڑوں،خچروں اورگدھوں کو (خلق فرمايا) تاکہ ان پر سواري کرو اور وہ تمہاري زينت بنيں اور وہ کئي ايک چيزيں خلق کرے گا جسے تم نہيں جانتے۔"
يہ آيت وسايل نقل وانتقال (ٹرانسپورٹيشن) (Transportation) کي طرف اشارہ کررہي ہے،ان وسائل سے زمانہ جاہليت کے اعراب آگاہ نہ تھے اور چونکہ آج کا زمانہ جديد ٹيکنولوجي (Technology) کا زمانہ ہے لذا عصر حاضر ميں وسائل نقل وانتقال سے مراد جہاز، گاڑي، کار.... ہے ۔
ج) وہ آيات کريمہ جن ميں حضرت ابراہيم کا ذکر موجود ہے کہ آپ نے چار پرندوں کو ذبح کيا اور ان کے ٹکڑوں کو چار مختلف پہاڑوں پر رکھ ديا،اس کے بعد وہ پرندے خدا کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوئے(١٣)، يہ آيات علوم کميسٹري پر دلالت کرتي ہے، چونکہ ان آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ترکيبات واجزاء وغيرہ بھي مورد توجہ قرآن کريم ہيں،اور آج علم جديد ميں ان اجزاء و ترکيبات کو علم "کميسٹري'' سے تعبير کيا جاتا ہے ۔
د) علم ہندسہ:﴿رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ﴾(١٤)۔
اس آيت شريفہ ميں علم ہندسہ کي طرف اشارہ موجود ہے،کيونکہ يہ آيت اس پر دلالت کرتي ہے کہ خداوندکريم نے درجات کو بہت اہميت دي ہے، اور يہ کہ اعداد ابجد کے حساب سے رفيع کا عدد ''٣٦٠'' ہے اور آيت ميں ''درجات'' سے مراد ''درجہ''ہے علاوہ از اين محيط کا مدار بھي ٣٦٠ درجہ ہے در نتيجہ آيت مذکورہ ميں علم ہندسہ کي طرف اشارہ موجود ہے۔
ھ) علم طب:﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾(١۵)۔ "اور جب ميں بيمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا بھي ديتا ہے۔"
پہلا نظريہ کے بقول: ان آيات کي روشني ميں ہم اس نتيجہ تک پہنچ سکتے ہيں کہ اگر چہ قرآن کريم ميں کميسٹري،رياضي و.....کے خاص فرمولے موجود نہيں ہيں،ليکن قرآن مجيد ميں يہ ضرور ہے کہ بعض قرآني آيات ميں جو علمي اشارے موجودہيں،ان کي مدد سے ہم ديگر فرمولے کا استخراج کرسکتے ہيں، درنتيجہ قرآن مجيد ميں تمام انساني علوم نہفتہ ہيں۔
۳۔ تيسري دليل اس پر کہ تمام علوم قرآن مجيد ميں موجود ہيں:
بعض روايات اس بارے ميں منقول ہوئي ہيں جو اس پر تاکيد کرتيں ہيں کہ قرآن کريم ميں تمام انساني علوم بيان ہوئے ہيں۔علاوہ از اين آئمہ(ع) نے مختلف علوم وفنون(ازجملہ علم طب،...) کے بارے ميں بحث و گفتگو کي ہے اور ان کا ارشاد بھي ہے کہ: ہمارے تمام علوم کي بنياد قرآن کريم ہے۔ يعني ہم جو کچھ کہتے ہيں وہ قرآن کريم سے ہي ہوتا ہے۔
لذا اس نظريہ کي بناء پر ہم اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں کہ تمام علوم کا سرچشمہ قرآن حکيم ہے ،اور ان علوم سے صرف خاص افراد آگاہ ہيں۔ يہاں پر ہم نمونہ کے طور ان چند روايات کي طرف اشارہ کريں گے جن سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن مجيد ميں تمام علوم انساني موجودہيں، وہ روايات يہ ہيں:
الف) امام محمدباقر (ع) فرماتے ہيں: "ان اﷲ تبارک وتعاليٰ لم يدع شيئاً تحتاج اليه الامة الا نزله في کتابه وبينه لرسوله"(١٦)۔ "مسلمان امت کو جن چيزوں کي ضرورت ہے،خداوند نے ان کو فراموش نہيں کيا ہے۔ان تمام اشياء کو جو مسلمانوں کيلئے ضروري ہيں،قرآن کريم ميں نازل کيا ہے اور پيامبر (ص) کے لئے بھي بيان کيا ہے۔"
ب) ابي عبداﷲ (ع) سے روايت ہے کہ: "اني لاعلم في السمٰوات وما في الارض واعلم ما في الجنة واعلم ما کان وما يکون قال ثم مکث ھنيئة فرأي ان ذلک کبر عليٰ من سمعه منه فقال: علمت ذلک من کتاب اﷲ عزوجل ان اﷲ عزوجل يقول:فيه تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْءٍ"(١٧)۔ "ميں زمين و آسمان کے (درميان) جو کچھ ہے اس سے آگاہ ہوں،اور ہر وہ چيز جو جنت اور جہنم ميں ہے،اس کے بارے ميں جانتا ہوں اور جو کچھ وقوع پذير ہوا ہے اور ہوگا،ان سب کے بارے ميں علم رکھتا ہوں۔اس کے بعد آپ نے کچھ دير توقف کيا اور متوجہ ہوئے کہ آپ کے مخاطبين کے لئے يہ مطالب سنگين ہيں،تو آپ نے فرمايا: ميں اس سے بھي آگاہ ہوں کہ خدا نے فرمايا ہے کہ:''قرآن مجيد ميں تمام چيزوں کو بيان کيا گيا ہے۔"
۴۔ چوتھي اور آخري دليل اس پرکہ تمام علوم انساني قرآن مجيد ميں بيان کئے گئے ہيں وہ مسئلہ ''بطون قرآن ''سے متعلق ہے۔ چونکہ بہت سي روايات ميں آيا ہے کہ قرآن کے کئي بطون ہيں اور يہ کہ ہر آيت کا ايک بطن ہے(١٨)۔ پس درنتيجہ قرآن کريم کا اعجاز يہ ہے کہ ہر کوئي ايک آيت سے ايک معاني سمجھتا ہے اور اس آيت کے بطن سے آگاہ ہوتا ہے۔عارف، فقيہ، فيلسوف، کيميادان... ہر کوئي مختلف معاني سے جوکہ دوسرا اس سے غافل ہوتا ہے،سے آگاہ ہوتے ہيں ۔پس دوسروں کو اس کے سمجھے ہوئے معاني سے منع نہيں کرنا چاہيے، کيونکہ بالفرض اگر وہ فيلسوف کي جگہ مثلا ايک کيميادان ہوتا تو وہ بھي يہ ہي معني(جوکہ کيميادان سمجھ رہا ہے) سمجھتا۔
الغرض(نظريہ اول کے مطابق) ہم ان دلائل کي روشني ميں اس نتيجہ تک پہنچتے ہيں کہ قرآن کريم ميں تمام انساني علوم ومعارف بيان ہوئے ہيں۔

 

منابع اور مآخذ:

١) فيروز اللغات اردو، ص٩٠٢۔ 
٢) ايسي تفسير جس ميں سائنسي پہلو بيان کيئے جائيں۔ 
٣) يہ بحث ڈاکٹر محمد علي رضائي کي کتاب سے لي گئي ہے۔ 
٤) فارابي کا شمار اسلامي دانشمندوں ميں ہوتا ہے۔ مزيد اطلاع کے لئے ملاحظہ فرمائيں: A History of muslim philosophy vol.۱ p. ۷۱٢,۱۹۹۳Delhi
٥) انعام، آيت ٥٩۔ 
۶) مزيد اطلاع کے لئے ملاحظہ فرمائيں: A History of european morals, A histrory of civilization,will durrant
٧) ہديٰ نمبر ٤ ميں''قرآن کريم ميں علم کي اہميت'' کے عنوان سے بحث ہوچکي ہے۔ 
٨) انعام، آيت ٥٩۔ 
٩) انعام، آيت ٣٨۔ 
١٠) نحل، آيت ٨٩ ۔ 
۱۱) انبيائ، آيت ۴۷۔ 
١٢) نحل، آيت ٨۔ 
١٣) بقرہ، آيت ٢٦٠ ۔ 
١٤) غافر، آيت ١٥۔ 
١٥) شعرائ، آيت ٨٠ ۔ 
١٦) تفسير نورالثقلين، ج٣ ص٧٤ ۔ 
۱۷) اصول کافي ج١ص٣٨٨حديث دوم۔ 
۱۸) ميزان الحکمة، ج٨ ص٩٤، ٩٥۔


چھاپیے   ای میل

Comments (0)

There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Attachments (0 / 3)
Share Your Location