وہ پہلے مرحلے میں مدّمقابل جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے، جب نہیں بن پاتا تو پھر مدّمقابل کو گرانے کی سعی کرتا ہے، جب اس میں بھی ناکام ہو جاتا ہے تو پھر مدّ مقابل کو مختلف حیلوں اور مفید مشوروں کے ساتھ میدان سے ہٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، جب اس تگ و دو میں بھی ناکام ہوجائے تو پھر مدّمقابل کی غیبت اور کردار کشی پر اتر آتا ہے۔ جب کھل کر غیبت اور کردار کشی بھی نہ کرسکے تو پھر اشارے کنائے میں ہی غیبت پر گزارہ کرتا ہے۔ اگر اس سے بھی اس کے حسد کی آگ نہ ٹھنڈی ہو تو پھر وہ اس انداز سے تعریف کرتا ہے کہ جس سے اس کے ارد گرد کے لوگ غیبت کرنے میں اس کی ہمنوائی کریں۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی حاسد خود اپنی ہی نظروں میں شکست خوردہ اور مرا ہوا ہوتا ہے۔ حاسد کو زندہ سمجھنا خود زندگی کے ساتھ مذاق ہے۔ جس طرح ایک شخص کو دوسرے سے حسد ہو جاتا ہے، اسی طرح ایک قوم اور ایک تنظیم کو بھی بعض اوقات دوسری سے حسد ہو جاتا ہے۔ قومی اور تنظیمی حاسد بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
اربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام افراد سے اور تنظیمیں ممبران سے تشکیل پاتی ہیں۔ اقوام میں افراد کی شمولیّت کسی حد تک اجباری اور کسی حد تک اختیاری ہوتی ہے، جبکہ تنظیموں میں شمولیّت فقط اختیاری ہوتی ہے۔ اقوام میں اجباری شمولیّت کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بھی یہودی خاندان میں متولد ہوتا ہے، وہ بہر صورت یہودی قوم کا فرد ہی متصور ہوگا۔ اب اقوام میں اختیاری شمولیت کی مثال یہ ہے کہ ایک یہودی کلمہ طیّبہ پڑھ کر اپنی سابقہ یہودی قومیّت سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اختیاری طور پر ملت اسلامیہ کا فرد بن جاتا ہے۔ سیاسی نظریات کے مطابق تنظیمی ممبر شپ کے لئے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر شخص جس خاندان میں پیدا ہو وہ موروثی طور پر اپنے ابا و اجداد کی پارٹی کاممبر بھی ہو۔ پارٹی کا ممبر بننے کے لئے اسے فارم پُر کرنے پڑتے ہیں اور مختلف تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
جس طرح ایک وقت میں ایک قوم کے اندر مختلف تنظیمیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایک تنظیم کے اندر بھی مختلف اقوام کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوام کی تشکیل رنگ، نسل، مذہب، علاقے، خاندان یا دین پر ہوتی ہے، اسی طرح تنظیموں کا انحصار بھی مذکورہ عناصر میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔ عام طور پر اقوام اپنی مشکلات کے حل کے لئے تنظیموں کو وجود میں لاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح افراد زندگی اور موت کے عمل سے گزرتے ہیں، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کو بھی زندگی اور موت سے واسطہ پڑتا ہے۔ قرآن مجید کی نگاہ میں بہت سارے لوگ بظاہر کھانے پینے، حرکت اور افزائش نسل کرنے کے باوجود مردہ ہیں، اسی طرح بہت سارے لوگ بظاہر جن کا کھانا پینا، حرکت کرنا اور افزائش نسل کا سلسلہ متوقف ہو جاتا ہے وہ زندہ ہیں اور قرآن مجید انہیں شہید کے لقب سے یاد کرتا ہے۔
افراد کی مانند اقوام اور تنظیمیں بھی دو طرح کی ہیں، کچھ زندہ ہیں اور کچھ مردہ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جس طرح افراد کی ظاہری حرکت زندگی کا معیار نہیں ہے، اسی طرح اقوام اور تنظیموں کی ظاہری حرکت اور فعالیت بھی زندگی کی غماض نہیں ہے۔ حرکت کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ حرکت کی سمت کیا ہے، چونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص زندگی کی آغوش میں بیٹھا ہوا ہو، لیکن موت کی طرف حرکت کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص موت کے سائے میں جی رہا ہو، لیکن زندگی کی طرف گامزن ہو۔ عبداللہ ابن ابیّ جیسے بہت سارے لوگ بظاہر پیغمبر اسلام (ص) کے پرچمِ حیات کے زیرِ سایہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کی سمت ہلاکت و بدبختی تھی۔ اسی طرح سلمان و ابوذر جیسے لوگ ظہورِ اسلام سے پہلے ہلاکت و بد بختی کے سائے میں جی رہے تھے، لیکن ان کی حرکت کا رخ حقیقی زندگی کی طرف تھا۔ بظاہر دونوں طرف حرکت تھی، اسی حرکت نے عبداللہ ابن ابیّ کو ہلاکت تک پہنچا دیا اور اسی حرکت نے سلمان (ر) و ابوذر (ر) کو حیاتِ ابدی سے ہمکنار کیا۔
اسی طرح تنظیموں کی زندگی میں بھی فقط ظاہری حرکت اور فعالیّت معیار نہیں ہے، بلکہ حرکت کی سمت کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ ہمارے دور کی بات ہے کہ طالبان نے بہت زیادہ فعالیت کی، لیکن اس کے باوجود طالبان مرگئے، اس لئے کہ ان کی حرکت کی سمت غلط تھی، لیکن حزب اللہ سربلند ہے، اس لئے کہ حزب اللہ کی حرکت کی سمت نظریات کی طرف ہے۔ طالبان کے نظریات سعودی عرب اور امریکہ سے درآمد شدہ تھے، چنانچہ ریال و ڈالر کی دانش کے ساتھ ہی ان کی نظریاتی موت بھی واقع ہوگئی، چونکہ ظلم و تشدد اور دھونس دھاندلی سے تنظیموں کو کبھی بھی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اب طالبان کی محبت کا دم بھرنے والے دھڑوں کو یہ نوشتہ دیوار ضرور پڑھ لینا چاہیے کہ حاسد کی مانند مردہ تنظیمیں بھی اپنے ہی ممبران کی نظروں میں مری ہوئی ہوتی ہیں۔ جہاں پر تنظیموں کی نظریاتی موت واقع ہوجائے، وہاں پر ان کے تابوت اٹھانے سے وہ زندہ نہیں ہو جایا کرتیں۔
ہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اور تنظیموں کی اساس ان کے عقائد اور نظریات پر قائم ہے۔ اسلامی تنظیموں کی زندگی میں ان کے نظریات اس قطب نما کی مانند ہیں، جس سے سمت معلوم کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملی تنظیم کی سمت مشخص نہ ہو اور حرکت نظر آئے تو اس کے ناخداوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی سمت درست معیّن کریں اور پھر حرکت کریں۔ بصورتِ دیگر وہ جتنی حرکت کرتے جائیں گے، اتنے ہی منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔ جو طاقت تنظیم کی حرکت کو کنٹرول کرتی ہے اور تنظیم کو نظریات کی سمت پر کاربند رکھتی ہے، وہ اس کے تربیّت یافتہ ممبران ہوتے ہیں۔ اگر کسی تنظیم میں تربیّت کا عمل رک جائے یا کھوکھلا ہوجائے تو وہ بھنور میں گھومنے والی اس کشتی کی مانند ہوتی ہے، جو جتنی تیزی سے حرکت کرتی ہے، اتنی ہی ہلاکت سے قریب ہوتی جاتی ہے۔ کسی بھی تنظیم کے ممبران کس حد تک تربیّت یافتہ ہیں، اس کا اندازہ ان کی جلوتوں سے یعنی نعروں اور سیمیناروں سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا پتہ ان کی خلوتوں سے چلتا ہے۔ جس تنظیم کے ممبران کی خلوتیں نظریات سے عاری ہوں، ان کی جلوتیں بھی عارضی اور کھوکھلی ہوتی ہیں۔
جب کسی تنظیم کے پرچم کو تھامنے والے افراد کی خلوتوں میں رشک کی جگہ حسد، حوصلہ افزائی کی جگہ حوصلہ شکنی، تعریف کی جگہ تمسخر، تکمیل کی جگہ تنقید، تدبر کی جگہ تمسخر، خلوص کی جگہ ریا اور محنت کی جگہ ہنسی مذاق لے لے تو اس تنظیم کی فعالیّت اور حرکت کو زندگی کی علامت سمجھنا یہ خود زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ ہماری ملّی تنظیموں کو ہر موڑ پر اس حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہیے کہ نظریات پر سمجھوتے کا نتیجہ تنظیموں کی موت کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔ تنظیمیں نعروں سے نہیں بلکہ نظریات سے زندہ رہا کرتی ہیں اور نظریات کی پاسداری صرف اور صرف تربیّت شدہ ممبران ہی کرتے ہیں۔ جہاں پر تنظیموں میں ممبران کی نظریاتی تربیّت کا عمل رک جائے، وہاں پر تنظیموں کو مرنے اور کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ غیر تربیّت یافتہ افراد تنظیموں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور پھندے کی مانند تنظیموں کے گلے میں اٹک جاتے ہیں