۱ـ دیوان اقبال.
سوره «بقره»کی آیت ۱۹۱ میں پڑھتے ہیں کہ للہ تعالی فتنہ کے متعلق فرماتا ہے : وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَاٴَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَیْثُ اٴَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اٴَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ )
سب سے پہلے ہم يہ ديکھتے ہيں کہ معجزہ کيا ہے - اگر معجزے کے لفظ پر غور کريں اور اس کي تحقيق کريں تو يہ بات سامنے آتي ہے کہ معجزے کا لفظ عجز سے نکلا ہے- معجزہ دراصل ايسي خلاف عقل اور خلاف واقعہ بات کو کہا جاتا ہے کہ انساني عقل جس کي کوئي توجيہہ پيش کرنے سے عاجزآ جائے- يہ چيز معجزہ کہلاتي ہے- اللہ تعالي نے انسان کي رہنمائي کے ليۓ اس زمين پر ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء مبعوث فرماۓ اور اللہ تعاليٰ نے انبياء کرام کو معجزے عطا کئے تاکہ ان کے ذريعے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لايا جائے-
انبياء کرام کے ساتھ ساتھ آئمہ کرام اور اولياء اکرام کو بھي اللہ تعاليٰ نے ايسي صلاحيتيں عطا کي تھيں جن کے ذريعے انہوں نے اسلام کے پيغام کو عام کيا- ان کو معجزہ کے بجائے کرامات کہا جاتا ہے ليکن بنيادي بات يہ ہے کہ انبياء کرام کے معجزے اور اولياء کرام کي کرامات دراصل اللہ کے اذن سے ہي ہوتي ہيں- انبيائے کرام کو مختلف معجزے عطا کيئے گئے - -حضرت موسيٰ عليہ السلام کا معجزہ ان کا عصا ( لاٹھي ) جو کہ ضرورت کے مطابق مختلف اشکال ميں ڈھل جاتي تھي- حضرت عيسيٰ عليہ السلام کي پيدائش ايک معجزہ ہے -حضرت عيسيٰ السلام اللہ کے حکم سے کوڑھيوں کو شفا،اندھوں کو بينائي عطا کرتے تھے اور مردوں کو بھي اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے- اسي طرح حضرت عيسيٰ کے زمانے ميں طب کا بڑا زور تھا چنانچہ اسي مناسبت سے اللہ تعاليٰ نے عيسيٰ کو وہ معجزات ديے کہ دنيائے طب حيران و پريشان ہو کر رہ گئي- حضرت نوح عليہ السلام کي کشتي ايک معجزہ تھي-حضرت صالح عليہ السلام کي اونٹني ايک معجزہ تھي.حضرت يونس عليہ السلام کا مچھلي کے پيٹ ميں زندہ رہنا ايک معجزہ تھا-الغرض انبياء کرام کو اللہ تعاليٰ نے مختلف معجزے عطا کيئے -
حضرت موسيٰ کے دور ميں جادو کا بڑا زور تھا فرعون کے حکم پر بڑے بڑے جادوگر جب فرعون کے دربار ميں جادو کے مقابلے ميں شريک ہوئے اور موسيٰ نے ان سب کے جادو کو شکست فاش دے دي تو وہ سمجھ گئے کہ يہ جادو نہيں بلکہ اللہ کي طاقت ہے، چنانچہ وہ بے ساختہ پکار اُٹھے:
(قَالُوْا اٰمَنَّابِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ - رَبِّ مُوْسٰي وَھٰرُوْنَ)
'' کہنے لگے ہم رب العالمين پرايمان لے آئے،جو موسٰي اور ہارون کا پروردگار ہے ''
(جاری ہے)
منبع: تبیان
قرآن مجيد کو تين مرحلوں ميں جمع کيا گيا ھے:
1- آيات کو منظم کرنے اور چننے کا مرحله که سوروں کي حالت پيدا ھوجائے- يه کام ، خود پيغمبر اکرم (ص) کے زمانه ميں آنحضرت ( ص) کے حکم سے انجام پايا ھے اور ھر آيت کي جگه کو خود آنحضرت (ص) نے مشخص فرمايا ھے-
2- تمام مصحفوں اور جداجدا صفحوں کو جمع کرکے انھيں ايک جلد ميں لانا، يه کام ابوبکر کے زمانه ميں انجام پايا ھے-
3- مختلف قرائتوں کے درميان اختلاف کو دور کرنے کے لئے کاتبان وحي کے ذريعه لکھے گئے قرآن مجيد کے تمام نسخوں کو جمع کرکے ايک قرآن کي صورت ميں پيش کرنا، يه کام عثمان کے زمانه ميں انجام پايا ھے. [1]-
وضاحت:
رسول خدا (ص) کے بعد قرآن مجيد کو باضابط طور پر خليفه اول کے حکم "اور زيد بن ثابت" کي ھمت سے صورت ملي اس سے پھلے حضرت علي (ع) نے بھي ايک مصحف تدوين کيا تھا، چونکه آپ (ع) سب کي به نسبت قرآن مجيد سے زياده آشنا تھے- ھجرت کي دوسري اور تيسري دھائي کے دوران اسلامي فتوحات کي وسعت اور اسلام کي طرف روز افزون رجحانات کے پيش نظر لوگوں ميں قرآن مجيد کي کتابت کے ليے دلچسپي پيدا ھوئي، اس کي وجه سے لکھنے پڑھنے والے افراد نے قرآن مجيد کي کتابت ميں کافي ھمت کا مظاھره کيا اور وه هر علاقه کے معروف و مشھور مصحفوں سے نسخه برداري (نقل ، مقابله) کرتے تھے- تاريخ ميں مسلمانوں کے درميان قرآن مجيد کي قرائت کے بارے ميں اختلاف پائے جاتے تھے اور کھاگيا ھے که يه اختلاف اس امر کا سبب بنے که بعض افراد نے ان کو دور کرنے کي چاره جوئي کي [2]-
مختلف مصحفوں کي قرائتوں کو ايک کرنے کي تجويز " حذيفه" نے پيش کي تھي، عثمان نے بھي اس کي ضرورت کے پيش نظر اقدام کرنے کا فيصله کيا، اس لئے انھوں نے صحابيوں کو دعوت دي اور انھوں نے بھي اس کام کي ضرورت کي تائيد کي - عثمان نے اس سلسله ميں چار افراد پر مشتمل ايک کميٹي تشکيل دي، ان ميں : زيد بن ثابت، عبدالله بن زبير، سعد بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے اور بعد ميں اس کميٹي کے ارکان کي تعداد باره تک پھنچي اور انھيں حکم ديا گيا که، چونکه قرآن مجيد قريش کي زبان ميں نازل ھوا ھے، اس لئے اسے اسي زبان ميں لکھيں-
قرآن مجيد کو ايک نسخه ميں جمع کرنے کي کميٹي سنه 25 ھجري ميں تشکيل پائي اور عثمان کے حکم سے اس کيٹي نے جو پھلا کام انجام ديا وه اس زمانه کے تمام اسلامي ممالک سے قرآن مجيد کے مختلف نسخوں کو جمع کرنا تھا- اس مرحله ميں قرآن مجيد کے دوسرے نسخے جمع کرنے کے بعد مدينه بھيجے جاتے تھے اور خليفه سوم کے حکم سے انھيں نذر آتش کيا جاتا تھا، يا ابلتے پاني ميں ڈالا جاتا تھا اور اسي وجه سے عثمان کو" حراق المصاحف" بھي کھا جاتا ھے- آخري مرحله ميں جمع کئے گئے قرآن کے مختلف نسخوں کو اھم علاقوں اور مراکز ميں قاري کے ساتھه بھيجا گيا، تاکه لوگوں کے سامنے قرآن مجيد کي قرائت کريں[3]-
ممالک اسلامي کے مختلف علاقوں ميں بھيجے گئے قرآن مجيد کے ان نسخوں کي تعداد کے بارے ميں مورخين کے درميان اختلاف پايا جاتا ھے- ابن ابي داﺝ†د نے ان کي تعداد چھه جلد بتائي ھے، جو مکه، کوفه، بصره، شام، بحرين اور يمن جيسے اسلامي مراکز ميں بھيجے گئے ايک نسخه کو مدينه ميں محفوظ رکھا گيا، اس نسخه کو "ام" يا "امام " کھتے تھے- يعقوبي نے اپني تاريخ ميں اس تعداد کے ساتھه دو جلد کا اضافه کيا ھے، ان دو جلدوں کو مصر اور الجزائر بھيجا گيا ھے- قرآن مجيد کے مختلف نسخے جو مختلف علاقوں ميں بيجھے گئے، ان کو ان علاقوں کے مراکز ميں محفوظ رکھا جاتا تھا، اور ان سے مزيد نسخے نقل کئے جاتے تھے، تاکه لوگوں تک پھنچا ئے جائيں [4]-
مصحف عثمان کي ترتيب وھي ترتيب ھے، جو اس وقت قرآن مجيد کي صورت ميں موجود ھے اور يه نسخه صحابيوں کے مصاحف، خاص کر مصحف" ابي بن کعب" کے مطابق تھا اور رسم الخط کے لحاظ سے اس زمانه کے رائج خط يعني نقطه اور علامتوں سے خالي تھا[5]-
شيعوں کا اس مطلب پر اجماع ھے که جو قرآن مجيد آج ھمارے ھاتھه ميں ھے، وھي مکمل اور تمام قرآن مجيد ھے اور مصحف عثماني وھي قرآن مجيد ھے جو اس وقت ھمارے ھاتھوں ميں ھے اور يه قرآن ھر قسم کي تحريف سے محفوظ ھے، اگرچه حضرت علي (ع) کے توسط سے جمع کيا گيا قرآن سوروں کے نزول کے مطابق تھا، ليکن چونکه اسي موجوده قرآن مجيد کي ائمه اطھار (ع) نے تائيد کي ھے، اس لئے ضرورت نھيں ھے که ھم اسے دوباره نزول کے مطابق شائع کريں، چاهے يه بدعت بھي نه ھو، کيونکه بدعت کے معني: ايک ايسي چيز کو دين ميں داخل کرنا ھے جو دين ميں نه ھو، اور يه حرام ھے، شيعوں کے اماموں نے بھي اس مطلب کي طرف اشاره کيا ھے-
ايک شخص نے امام صادق (ع) کي خدمت ميں قرآن مجيد کے ايک حرف کي عام لوگوں کي قرائت کے برعکس قرائت کي- امام (ع) نے اس سے فرمايا:" اس کلمه کي دوباره اس طرح قرائت نه کرنا اور جس طرح عام لوگ اس کي قرائت کرتے ھيں، تم بھي اسي طرح قرائت کرنا-[6]"
حضرت علي (ع) نے متحدي مصحف کے بارے ميں اجمالي طور پر اپني مثبت رائے کا اظھار کيا ھے- ابن ابي داﺝ†د نے سويد بن غفله سے روايت نقل کي ھے که حضرت علي (ع ) نے فرمايا:" خدا کي قسم عثمان نے مختلف مصحفوں کے بارے ميں ميرے ساتھه صلاح و مشوره کئے بغير کوئي کام انجام نھيں ديا ھے-[7]"
يا ايک دوسري روايت ميں فرمايا ھے:" اگر مصحفوں کي ذمه داري مجھے بھي سونپي جاتي تو، ميں بھي وھي کام انجام ديتا، جو عثمان نے انجام ديا ھے -[8]"
نتيجه يه که: قرآن مجيد کو جمع کرنے کي تاريخ کے مطابق قرآن مجيد کي آيات کي جگه کو خود پيغمبر (ص) نے مشخص کيا ھے، اصحاب کے سليقے کے مطابق يه کام انجام نھيں پايا ھے- يعني نازل ھونے والي ھر آيت کے بارے ميں خود آنحضرت (ص) فر ماتے تھے که اسے کھاں پر جگه ديں اور جو قرآن مجيد اس وقت ھمارے ھاتھوں ميں ھے، يه وھي قرآن مجيد ھے جسے عثمان کے زمانه ميں جمع کيا گيا ھے اور چونکه اس سلسله ميں قاريوں اور حافظوں کے ايک گروه اور کميٹي نے آپس ميں تعاون کيا ھے، اور اس کے علاوه ائمه اطھار (ع) نے بھي اس کي تائيد کي ھے، اس لئے نھيں کھا جاسکتا ھے که يه عثمان کا اپنا سليقه تھا که وه آيات کو جابجا کرتے-
حوالہ جات:
[1] شاکرين، حميد رضا، قرآن شناسي، ص 19، دفتر نشر معارف، طبع هفتم ، 1386. ھ ش
[2] درسنامه علوم قرآني، حسين، جوان آراسته، ص 198، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، قم، طبع سوم، سال 1378.ھ ش
[3]ايضا، ص 203.
[4] آموزش علوم قرآن، ترجمه التمهيد في علوم القرآن، محمد هادي معرفت، مترجم ابو محمد وکيلي، ج 1، ص 425، انتشارات مرکز طبع و نشر سازمان تبليغات اسلامي، قم، طبع اول،1371، ھ ش
[5]ايضا، ج 1، ص 433.
[6]ايضا، ج 1، ص 416.
[7] الاتقان في علوم القرآن، جلال الدين سيوطي، ج 1، ص 170، انتشارات عصريّه، طبع بيروت، سال 1408هـ
[8] محمد ابن محمود معروف به ابن جزري، النشر في القرائات العشر، ج 1، ص 8، انتشارات دارالکتب العلميه، طبع بيروت