قرآن کریم کی تلاوت کے کیا آداب ھیں ؟

سوال

قرآن کریم کی تلاوت کے کیا آداب ھیں ؟

 

جواب

سب سے زیادہ پاکیزہ کتاب قرآن کریم، ایک پاکیزہ ترین ذات کی طرف سے، پاکیزہ ترین قلب پر نازل ہوئی۔ اسی وجہ سے صرف وہ لوگ قرآن کریم کے قریب جا سکتے ہیں جو ظاہری اور باطنی اعتبار سے پاک و پاکیزہ ہوں۔ " انہ لقرآن کریم، فی کتاب مکنون، لایمسہ الا المطھرون" [۱]

موضوع کی ظرافت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بہتر ہے کہ ابتدا میں طہارت کے مصادیق کو گنوایا جائے اور اس کے بارے میں تھوڑی بہت فکر کی جائے:

جسم کی طہارت

قرآن کریم کو مس کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جسم پاک ہو امام خمینی [رہ] کے فتوی کے مطابق " قرآن کریم کے خط کو مس کرنا یعنی بدن کے کسی حصے کو قرآن کے الفاظ تک پہنچانا بغیر وضو کے حرام ہے"۔[۲]

وضو ایسی چیز ہے جس کو انجام دینے سے ہمارا ذہن تمام خیالات سے خالی ہو جاتا ہے اور صرف معنوی افکار ہمارے ذہن میں حاوی ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے وضو کی معنوی کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

جب وضو کرنے کا ارادہ کرو اور پانی کے نزدیک جاو تو اس شخص کی طرح ہو جاو جو پرور دگار عالم کی رحمت کے قریب ہونا چاہتا ہے اس لیے کہ خدا نے پانی کو اپنے قریب کرنے اور مناجات کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ [۳]

زبان اور منہ کی طہارت

زبان کی پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں آئمہ معصومین علیہم السلام سے چند حدیثیں نقل ہوئی ہیں :

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا؛ پیغمبر اسلام [ص] نے فرمایا:

قرآن کے راستے کو پاکیزہ رکھیں۔

پوچھا: اے رسول خدا قرآن کا راستہ کون سا ہے؟

فرمایا: آپ کے منہ۔

پوچھا: کیسے پاکیزہ رکھیں٫

فرمایا: مسواک کے ذریعے۔ [۴]

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اباء و اجداد کے ذریعہ رسول خدا سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا: آپ کی زبانیں کلام الہی کا راستہ ہیں انہیں پاکیزہ رکھیں۔ [۵]

وہ زبان جو غیبت، تہمت، جھوٹ جیسے گناہان کبیرہ سے آلودہ ہو ۔

وہ زبان جو حرام کھانوں کا مزہ لیتی رہی ہو۔

وہ زبان جو دوسروں کی دل شکنی کا سبب بنی ہو۔

وہ زبان جس کے شر سے دوسرے مسلمان ہمیشہ اذیت میں ہوں۔

کیسے کلام الہی اس پر جاری ہو سکتا ہے؟

جی ہاں، اس پاکیزہ کلام کی تلاوت کے لیے زبان کی پاکیزگی ضروری ہے ورنہ صاف پانی بھی ایک گندی نالی میں گندہ ہو جاتا ہے اور استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ اور اگر قرآن کریم ناپاک زبان پر جاری ہو گا تو " رب تال القرآن و القرآن یلعنہ" [کتنے ایسے قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے ][۶]کا مصداق بن جائے گا۔

آنکھ کی طہارت

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: اعط العین حقھا۔ آنکھ کا حق ادا کرو۔

عرض کیا یا رسول اللہ آنکھ کا حق کیا ہے؟

فرمایا: النظر الی المصحف؛ قرآن پر نگاہ کرنا۔

اس لیے کہ قرآن کریم کی دیکھ کر تلاوت کرنا ثواب رکھتا ہے اور اگر آنکھ آلودہ ہو ناپاک ہو تو قرآن پر نگاہ کرنے کی توفیق حاصل نہیں کرے گی [۷]

روح کی طہارت

وہ ناپاک روح جو شیطانی وسوسوں میں اسیر ہو جو اپنی طہارت اور پاکیزگی کو کھو چکی ہو جو مادیات کے ساتھ اس قدر وابستہ ہو کہ اس سے منہ پھیرنا محال ہو چکا ہو، جو گناہوں کی آلودگی سے کثیف ہو چکی ہو وہ قرآن پاک کی معنویت اور اس کے نورانی پیغام کو کیسے ادراک کر سکتی ہے؟

لیکن پاکیزہ روح جس کا مادیات کے ساتھ کوئی سرو کار نہ ہو جس نے خود سازی کے ذریعے اپنی پاکیزگی کو محفوظ رکھا ہو۔

جس نے آثار کبرائی میں تفکر و تدبر کے ذریعے شیطانی وسواس اور شرک آلود افکار سے کنارہ کشی اختیار کی ہو۔

ایسی پاک و پاکیزہ روح تلاوت قرآن کے دوران قرآن کی معنویت اور نورانیت سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اس سے معنوی غذا حاصل کرتی ہے۔

باقی اعضائے بدن کی طہارت

آیت اللہ جوادی آملی کے بقول: کان، آنکھ ہاتھ اور دیگر اعضا بھی قرآن کریم کے ادراک کے راستے ہیں [۸]

وہ کان جو قرآن کی دلربا آواز کو سنتا ہے اور اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا وہ کان جو قرآن کا مخاطب واقع ہوتا ہے لیکن ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا ہے وہ کان جو غیبت، تہمت وغیرہ سن کر لذت کا احساس کرتا ہے ایسا کان پاکیزہ نہیں ہے۔ قرآن کی تلاوت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

وہ ہاتھ جو دوسروں کا مال لوٹ گھسوٹ کرنے کا عادی رہا ہے وہ ہاتھ جس سے دوسروں پر ظلم ہوتا رہا ہے وہ قرآن کریم کو کیسے مس کر سکتا ہے لا یمسہ الا المطہرون[۹]

لہذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی حقیقت اور اس کے ظاہر اورباطن کو ادراک کرنے کے لیے بدن کے تمام اعضاء پاکیزہ ہوں۔تاکہ قرآن کی نورانیت اس پر اثر کرے۔

جسم کی ظاہری طہارت تو بہت آسان ہے ایک نیت اور چند چلو پانی سے بدن کو ظاہری طورپر پاک کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ظاہر قرآن کو لمس کیا جا سکتا ہے لیکن باطن قرآن کو سمجھنے کے لیے بدن کی باطنی طہارت شرط ہے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی کا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

تلاوت قرآن کو سننے کے آداب

سزاوار ہے کہ قرآن کریم کی جب تلاوت ہو رہی ہو تو انسان سکوت اور خاموشی اختیار کرے اور توجہ کے ساتھ اسے سنے۔

اپنےدل سے کلام الہی کا احترام کرے۔

اللہ کے کلام کو سننے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرے۔

آیات قرآن پر تدبر اور تفکر کرے۔

آیات قرآن کے معانی کو اپنے وجود کے اندر محسوس کرے

اور روح کو اس نورانی کلام سے جلا بخشے۔[۱۰]

قاریان قرآن امام صادق علیہ السلام کی نظر میں

امام صادق علیہ السلام نے قاریان قرآن کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے:

۱: ایک گروہ وہ ہے جو سلاطین اور بادشاہوں کے قریب ہونے اور لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل کرنے کی غرض سے تلاوت قرآن کرتاہے یہ گروہ اہل جہنم ہے۔

۲: ایک گروہ ایسا ہے جس نے قرآن کے الفاظ کو ازبر کر رکھا ہے لیکن اس کے معنی سے اسے کوئی مطلب نہیں ہے یہ گروہ بھی اہل جہنم میں سے ہے۔

۳: ایک گروہ وہ ہے جو قرآن کی تلاوت کرتاہے اس کے معنی اور مفہوم کا ادراک کرتا ہے اس کے محکم اور متشابہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے حلال و حرام کو سمجھتا اور ان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہ گروہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نجات عطا کرتا ہے اور انہیں بہشت کی نعمتوں سے نوازتا ہے اور وہ جس کے بارے میں بھی چاہیں حق شفاعت رکھتے ہیں۔ [۱۱]

حفظ قرآن کے آداب

۱: بچوں کو بچپنے سے حفظ قرآن کی عادت ڈالنا چاہیے۔

۲: حفظ کرنے سے پہلے قرآن ٹھیک سے پڑھنا آنا چاہیے۔

۳: آیات کو عربی لب ولہجہ میں تلاوت کیا جائے اور حفظ کے ساتھ ساتھ اس مفہوم سے اشنائی بھی حاصل کی جائے۔

۴:ترتیل کو سیکھا جائے اور ترتیل کے طریقہ سے قرآن کو حفظ کیا جائے۔

۵:حفظ کے دوران ایک جلد اور ایک معین خط سے قرآن یاد کیا جائے۔

۶:روزانہ آدھا گھنٹہ مشق کی جائے دھیرے دھیرے اس میں اضافہ کیا جائے۔

۷: ایک معین وقت میں مثال کے طور پر ہر روز صبح سات بجے حفظ کیا جائے۔

۸:حفظ چھوٹے سوروں سے آغاذ کیا جانا چاہیے۔

۹: غصہ، بھوک و پیاس کی حالت میں قرآن کو حفظ نہیں کیا جائے۔

۱۰:آیات کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ آیات کے نمبر اور صفحات بھی ذہن میں رکھے جائیں۔

۱۱: حفظ قرآن روزانہ تکرار کا محتاج ہے۔

۱۲: سفر میں زیادہ تکرار کیا جا سکتا ہے۔

۱۳: حفظ کے لیے ترجمہ شدہ قرآن سے استفادہ نہ کریں۔

۱۴:لمبے سوروں کو تھوڑا تھوڑا کر کے حفظ کیا جائے۔

۱۵: دو آدمی مل کر مباحثہ کی صورت میں جلدی اور آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں۔

 

قرآن کریم کی تلاوت کے آثار

۱: دلی نورانیت

عن رسول اللہ [ص] : ان ھذہ القلوب تصدا کالحدید۔ قیل: یا رسول اللہ فما جلاء ھا؟

قال: تلاوۃ القرآن۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ان دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ کہا گیا : یا رسول اللہ ان کو کیسے جِلا دیں؟ فرمایا: تلاوت قرآن سے۔

عن امیر المومنین: ان اللہ سبحانہ لم یعظ احدا بمثل ھذا القرآن ، فانہ حبل اللہ المتین و سببہ الامین و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقلب جلاء غیرہ

خدا وند متعال نے قرآن کریم کی حد تک کسی چیز کو بھی نصیحت کے ذریعہ نہیں دیا۔ اس لیے کہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی اور اطمینان بخش دستاویز ہے اس میں دلوں کی بہار ہے اور علم کے چشمے ہیں لہذا قرآن کے علاوہ دلوں کو جِلا دینے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔

۲: حافظہ کا قوی ہونا

۳: اہل خانہ کے درمیان معنویت کا پیدا ہونا

عن رسول اللہ [ص]: ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ و یتدارسونہ بینھم الا نزلت علیھم السکینۃ و غشیتھم الرحمہ و حفتھم الملائکۃ ۔۔

کوئی گروہ کسی گھر میں تلاوت قرآن کرنے اور ایک دوسرے کو درس قرآن دینےکے لیے جمع نہیں ہو گا مگر خدا وند عالم انہیں اطمینان اور سکون عطا کرے گا اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔

۴: سعہ صدر اور وسعت رزق

قال النبی [ص] : نوروا بیوتکم بتلاوۃ القرآن فان لبیت اذا کثر فیہ تلاوۃ القرآن کثر خیرہ و امتع اہلہ۔

اپنے گھروں کو تلاوت قرآن سے منور کرو اس لیے کہ وہ گھر جن میں تلاوت قرآن کثرت سے ہوتی ہے خدا وند عالم اس گھر پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کی فراوانی کر دیتا ہے

عن علی [ع] افضل الذکر القرآن بہ تشرح الصدور و تستنیر السرائر

بہترین ذکر قران ہے قرآن کے ذریعے اپنے سینوں میں فراخ دلی پیدا کرو اور اپنے باطن کو نورانی کرو۔

۵: مشکلات کا مقابلہ کرنے پر قدرت اور اللہ پر بھروسہ [۱۴]

حوالہ جات

۱ـ دیوان اقبال.
۲ـ واقعه, ۷۹ ـ ۷۷.
۳ـ توضیح المسائل ـ مسئله ۳۱۷.
۴ـ مصباح الشریعه, باب دهم.
۵ـ الحیات, ج ۲, ص ۱۶۱ ـ ۱۶۲.
۶ـ وہی حوالہ.
۷ـ مستدرک ج ۱ ص ۲۹۱..
۸ـ آداب قرآن, مهدى مشایخى, ص ۱۰۴.
۹ـ وہی حوالہ, ص ۱۰۵.
۱۰ـ واقعه, ۷۹.
۱۱ـ آداب قرآن, مهدى مشایخى, ص ۱۶۶.
۱۲ـ امالى صدوق, ص ۱۷۹ والحیات ج ۲, ص ۱۷۱.
۱۳ـ الحیاه, ج ۲, ص ۱۷۲.
۱۴ـ با استفاده از آموزش قرآن, عبدالرحیم موگهى.

قرآنی آیات میں فتنہ سے کیا مراد ہے ؟

سوال 

قرآنی آیات میں فتنہ سے کیا مراد ہے ؟


جواب 

سوره «بقره»کی آیت ۱۹۱ میں پڑھتے ہیں کہ للہ تعالی فتنہ کے متعلق فرماتا ہے : وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَاٴَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَیْثُ اٴَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اٴَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ )
۔ او رانہیں ( بت پرستوں کو جو کسی جرم و تجاوز سے منہ نہیں موڑتے ) جہاں پاؤ قتل کرد و اور جہاں (مکہ ) سے انہوں نے تمہیں نکال دیا ہے۔ انہیں نکال با ہر کرو اور فتنہ (و بت پرستی ) قتل سے بھی بدتر ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس جنگ نہ کرو جب تک وہ وہاں پر تمہار ے ساتھ جنگ نہ کریں پس اگر وہ تم سے جنگ کریں تو انہےں قتل کرو۔ یہی ہے کافروں کی جزاء
۔ اور اگروہ رک جائیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت ۱۹۰ تا ۱۹۵ میں خدا تعالی نے ان کفار مکہ کے با رے میں مسلمانوں کی ذمہ واری کو واضح کیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو گھر سے بے گھر کیا ، انہیں ہر قسم کے اذیت و آزار پہنچائی اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے ہزاروں جتن کئے ۔
زیر نظر پہلی آیت میں اس حکم کے دائر ے کو وسعت دیتے ہو ئے مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ ان دشمنوں کو جہاں بھی آمادہ پیکار دیکھو قتل کرڈالواور جیسے انہوں نے اپنے پوری قوت سے مسلمانوں کو مکہ سے با ہر نکالنے اور آوارہ منزل کرنے کے لیے اقدام کئے ہیں ۔ ان سے و ہی سلوک کرو اور انہیں مکہ سے با ہر نکال دو۔
و الفتنة اشد من القتل
اور فتنہ قتل سے بد تر ہے
لغت کے لحاظ سے (فتنہ) کا ایک وسیع معنی ہے۔ اس کے مفہوم میں ہر قسم کا مکرر و فریب، فساد، شرک گناہ اور رسوائی شامل ہے۔ اس آیت میں اس سے مراد و ہی شرک اور بت پرستی ہے جو بہت سے اجتماعی مفاسد، اختلاف ، پراکندگی، گناہ و فساد اور خونریزی کا سرچشمہ ہے۔
اس مفھوم کی شاہد ایک اور آیت ہے۔
قاتلوہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین للہ
ان سے جنگ کرو تا کہ فتنہ جڑسے ختم ہو جائے اور سب واحد و یگانہ پرست ہو جائیں
اس بناپر (الفتنہ اسد من القتل) والے جملے کا معنی یہ ہوگا کہ بت پرستی کا مذہب اور اس سے پیدا ہو نے والے مکہ میں مروج بہت سے انفرادی و اجتماعی فسادات قتل کر نے اور ماردینے سے بھی سخت تر ہے کیونکہ ان امور نے خدا کے امن والے حرم کو آلودہ کر رکھا ہے ۔ اس لیے خونریزی کے خوف سے شرک و بت پرستی اور اس سے پیدا ہونے والے فتنہ و فساد کی ریشہ کنی، ہونا چاہیئے۔
اس کے بعد مزید فرمایا کہ مسلمانوں کو مسجد الحرام اکا احترام کرنا چا ہئیے۔اس جگہ کااحترام جسے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کی دخواست کے مطابق جائے امن قرار دیا ہے ۔ جب تک وہاں خود دشمن ہتھیار نہ اٹھائے اس وقت تک ان سے جنگ کرنے اور قتل کرنے کی اجازت نہیں لیکن اگر وہ مسجد الحرام کا احترام نہ کریں تو پھر مسلمانوں کو حق پہچتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مسجد الحرام کے اندر بھی جنگ کرسکیں ۔ البتہ پیش دستی نہیں کر سکتے اور نہ وہ یہ حق رکھتے ہیں کہ خدا نے جسے جائے امن قرار دیا ہے اس کا احترام پامال کریں۔
آیت کے آخر میں تصریح کی گئی ہیں یہ کفار کی سزا ہے کہ اگر وہ کسی مقدس جگہ پر تجاوز روا ر کھیں تو انہیں سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائے تا کہ وہ حرم کے تقدس اور احترام سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں ۔
فان انتہوا فان اللہ غفور رحیم
اگر وہ رک جائیں تو خدا پردہ پوشی کرنے والا مہربان ہے
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ کفر سے دستبردار ہونے اور بت پرستی اور شرک کے مذہب کو پس پشت ڈال دینے سے خدا ان کی توبہ قبول کرلے گا اور وہ مسلمانوں کے بھائی ہوجائیں گے یہاں تک کہ وہ ان سزاوٴں اور تاوان سے بھی صرف نظر کر لے گا جو مجرموں کے لیے ہوتا ہے۔۱
1. تفسیر نمونه، جلد 2، صفحه 3۲روح المعانى»، جلد 2، صفحه 65.
(2) . عنکبوت، آیه 2.
(3) . اعراف، آیه 27.
(4) . ذاریات، آیات 13 و 14.
(5) . مائده، آیه 41.
(6) . گرد آوری از: تفسیر نمونه، حضرت آیت الله مکارم شیرازی، جلد 2، صفحه 32.

انبياء کرام اور معجزے

سب سے پہلے ہم يہ ديکھتے ہيں کہ معجزہ  کيا ہے - اگر معجزے کے لفظ پر غور کريں  اور اس کي تحقيق کريں تو يہ بات سامنے آتي ہے کہ معجزے کا لفظ عجز سے نکلا ہے- معجزہ دراصل ايسي خلاف عقل اور خلاف واقعہ بات کو کہا جاتا ہے کہ انساني عقل جس کي کوئي توجيہہ پيش کرنے سے عاجزآ جائے- يہ چيز معجزہ کہلاتي ہے- اللہ تعالي نے انسان کي رہنمائي کے ليۓ اس زمين پر ايک لاکھ چوبيس ہزار انبياء مبعوث فرماۓ  اور  اللہ تعاليٰ نے انبياء کرام کو معجزے عطا کئے تاکہ ان کے ذريعے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لايا جائے-

انبياء کرام کے ساتھ ساتھ آئمہ کرام اور اولياء اکرام کو بھي اللہ تعاليٰ نے ايسي صلاحيتيں عطا کي تھيں جن کے ذريعے انہوں نے اسلام کے پيغام کو عام کيا- ان کو معجزہ کے بجائے کرامات کہا جاتا ہے ليکن بنيادي بات يہ ہے کہ انبياء کرام کے معجزے اور اولياء کرام کي کرامات دراصل اللہ کے اذن سے ہي ہوتي ہيں- انبيائے کرام کو مختلف معجزے عطا کيئے گئے - -حضرت موسيٰ عليہ السلام کا معجزہ ان کا عصا ( لاٹھي ) جو کہ ضرورت کے مطابق مختلف اشکال ميں ڈھل جاتي تھي- حضرت عيسيٰ عليہ السلام کي پيدائش ايک معجزہ ہے -حضرت عيسيٰ السلام اللہ کے حکم سے کوڑھيوں کو شفا،اندھوں کو بينائي عطا کرتے تھے اور مردوں کو بھي اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے- اسي طرح حضرت عيسيٰ کے زمانے ميں طب کا بڑا زور تھا چنانچہ اسي مناسبت سے اللہ تعاليٰ نے عيسيٰ کو وہ معجزات ديے کہ دنيائے طب حيران و پريشان ہو کر رہ گئي- حضرت نوح عليہ السلام  کي کشتي ايک معجزہ تھي-حضرت صالح عليہ السلام کي اونٹني ايک معجزہ تھي.حضرت يونس عليہ السلام کا مچھلي کے پيٹ ميں زندہ رہنا ايک معجزہ تھا-الغرض انبياء کرام کو اللہ تعاليٰ نے مختلف معجزے عطا کيئے -

حضرت موسيٰ کے دور ميں جادو کا بڑا زور تھا فرعون کے حکم پر بڑے بڑے جادوگر جب فرعون کے دربار ميں جادو کے مقابلے ميں شريک ہوئے اور موسيٰ نے ان سب کے جادو کو شکست فاش دے دي تو وہ سمجھ گئے کہ يہ جادو نہيں بلکہ اللہ کي طاقت ہے، چنانچہ وہ بے ساختہ پکار اُٹھے:

(قَالُوْا اٰمَنَّابِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ - رَبِّ مُوْسٰي وَھٰرُوْنَ)

'' کہنے لگے ہم رب العالمين پرايمان لے آئے،جو موسٰي اور ہارون کا پروردگار ہے ''

(جاری ہے)

منبع: تبیان

قرآن کي جمع آوري ميں مراحل

قرآن مجيد کو تين مرحلوں ميں جمع کيا گيا ھے:

1- آيات کو منظم کرنے اور چننے کا مرحله که سوروں کي حالت پيدا ھوجائے- يه کام ، خود پيغمبر اکرم (ص) کے زمانه ميں آنحضرت ( ص) کے حکم سے انجام پايا ھے اور ھر آيت کي جگه کو خود آنحضرت (ص) نے مشخص فرمايا ھے-

2- تمام مصحفوں اور جداجدا صفحوں کو جمع کرکے انھيں ايک جلد ميں لانا، يه کام ابوبکر کے زمانه ميں انجام پايا ھے-

3- مختلف قرائتوں کے درميان اختلاف کو دور کرنے کے لئے کاتبان وحي کے ذريعه لکھے گئے قرآن مجيد کے تمام نسخوں کو جمع کرکے ايک قرآن کي صورت ميں پيش کرنا، يه کام عثمان کے زمانه ميں انجام پايا ھے. [1]-

وضاحت:

رسول خدا (ص) کے بعد قرآن مجيد کو باضابط طور پر خليفه اول کے حکم "اور زيد بن ثابت" کي ھمت سے صورت ملي اس سے پھلے حضرت علي (ع) نے بھي ايک مصحف تدوين کيا تھا، چونکه آپ (ع) سب کي به نسبت قرآن مجيد سے زياده آشنا تھے- ھجرت کي دوسري اور تيسري دھائي کے دوران اسلامي فتوحات کي وسعت اور اسلام کي طرف روز افزون رجحانات کے پيش نظر لوگوں ميں قرآن مجيد کي کتابت کے ليے دلچسپي پيدا ھوئي، اس کي وجه سے لکھنے پڑھنے والے افراد نے قرآن مجيد کي کتابت ميں کافي ھمت کا مظاھره کيا اور وه هر علاقه کے معروف و مشھور مصحفوں سے نسخه برداري (نقل ، مقابله)  کرتے تھے- تاريخ ميں مسلمانوں کے درميان قرآن مجيد کي قرائت کے بارے ميں اختلاف پائے جاتے تھے اور کھاگيا ھے که يه اختلاف اس امر کا سبب بنے که بعض افراد نے ان کو دور کرنے کي چاره جوئي کي [2]-

مختلف مصحفوں کي قرائتوں کو ايک کرنے کي تجويز " حذيفه" نے پيش کي تھي، عثمان نے بھي اس کي ضرورت کے پيش نظر اقدام کرنے کا فيصله کيا، اس لئے انھوں نے صحابيوں کو دعوت دي اور انھوں نے بھي اس کام کي ضرورت کي تائيد کي - عثمان نے اس سلسله ميں چار افراد پر مشتمل ايک کميٹي تشکيل دي، ان ميں : زيد بن ثابت، عبدالله بن زبير، سعد بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے اور بعد ميں اس کميٹي کے ارکان کي تعداد باره تک پھنچي اور انھيں حکم ديا گيا که، چونکه قرآن مجيد قريش کي زبان ميں نازل ھوا ھے، اس لئے اسے اسي زبان ميں لکھيں-

قرآن مجيد کو ايک نسخه ميں جمع کرنے کي کميٹي سنه 25 ھجري ميں تشکيل پائي اور عثمان کے حکم سے اس کيٹي نے جو پھلا کام انجام ديا وه اس زمانه کے تمام اسلامي ممالک سے قرآن مجيد کے مختلف نسخوں کو جمع کرنا تھا- اس مرحله ميں قرآن مجيد کے دوسرے نسخے جمع کرنے کے بعد مدينه بھيجے جاتے تھے اور خليفه سوم کے حکم سے انھيں نذر آتش کيا جاتا تھا، يا ابلتے پاني ميں ڈالا جاتا تھا اور اسي وجه سے عثمان کو" حراق المصاحف" بھي کھا جاتا ھے- آخري مرحله ميں جمع کئے گئے قرآن کے مختلف نسخوں کو اھم علاقوں اور مراکز ميں قاري کے ساتھه بھيجا گيا، تاکه لوگوں کے سامنے قرآن مجيد کي قرائت کريں[3]-

ممالک اسلامي کے مختلف علاقوں ميں بھيجے گئے قرآن مجيد کے ان نسخوں کي تعداد کے بارے ميں مورخين کے درميان اختلاف پايا جاتا ھے- ابن ابي داﺝ†د نے ان کي تعداد چھه جلد بتائي ھے، جو مکه، کوفه، بصره، شام، بحرين اور يمن جيسے اسلامي مراکز ميں بھيجے گئے ايک نسخه کو مدينه ميں محفوظ رکھا گيا، اس نسخه کو "ام" يا "امام " کھتے تھے- يعقوبي نے اپني تاريخ ميں اس تعداد کے ساتھه دو جلد کا اضافه کيا ھے، ان دو جلدوں کو مصر اور الجزائر بھيجا گيا ھے- قرآن مجيد کے مختلف نسخے جو مختلف علاقوں ميں بيجھے گئے، ان کو ان علاقوں کے مراکز ميں محفوظ رکھا جاتا تھا، اور ان سے مزيد نسخے نقل کئے جاتے تھے، تاکه لوگوں تک پھنچا ئے جائيں [4]-

مصحف عثمان کي ترتيب وھي ترتيب ھے، جو اس وقت قرآن مجيد کي صورت ميں موجود ھے اور يه نسخه صحابيوں کے مصاحف، خاص کر مصحف" ابي بن کعب" کے مطابق تھا اور رسم الخط کے لحاظ سے اس زمانه کے رائج خط يعني نقطه اور علامتوں سے خالي تھا[5]-

شيعوں کا اس مطلب پر اجماع ھے که جو قرآن مجيد آج ھمارے ھاتھه ميں ھے، وھي مکمل اور تمام قرآن مجيد ھے اور مصحف عثماني وھي قرآن مجيد ھے جو اس وقت ھمارے ھاتھوں ميں ھے اور يه قرآن ھر قسم کي تحريف سے محفوظ ھے، اگرچه حضرت علي (ع) کے توسط سے جمع کيا گيا قرآن سوروں کے نزول کے مطابق تھا، ليکن چونکه اسي موجوده قرآن مجيد کي ائمه اطھار (ع) نے تائيد کي ھے، اس لئے ضرورت نھيں ھے که ھم اسے دوباره نزول کے مطابق شائع کريں، چاهے يه بدعت بھي نه ھو، کيونکه بدعت کے معني: ايک ايسي چيز کو دين ميں داخل کرنا ھے جو دين ميں نه ھو، اور يه حرام ھے، شيعوں کے اماموں نے بھي اس مطلب کي طرف اشاره کيا ھے-

ايک شخص نے امام صادق (ع) کي خدمت ميں قرآن مجيد کے ايک حرف کي عام لوگوں کي قرائت کے برعکس قرائت کي- امام (ع) نے اس سے فرمايا:" اس کلمه کي دوباره اس طرح قرائت نه کرنا اور جس طرح عام لوگ اس کي قرائت کرتے ھيں، تم بھي اسي طرح قرائت کرنا-[6]"

حضرت علي (ع) نے متحدي مصحف کے بارے ميں اجمالي طور پر اپني مثبت رائے کا اظھار کيا ھے- ابن ابي داﺝ†د نے سويد بن غفله سے روايت نقل کي ھے که حضرت علي (ع ) نے فرمايا:" خدا کي قسم عثمان نے مختلف مصحفوں کے بارے ميں ميرے ساتھه صلاح و مشوره کئے بغير کوئي کام انجام نھيں ديا ھے-[7]"

يا ايک دوسري روايت ميں فرمايا ھے:" اگر مصحفوں کي ذمه داري مجھے بھي سونپي جاتي تو، ميں بھي وھي کام انجام ديتا، جو عثمان نے انجام ديا ھے -[8]"

نتيجه يه که: قرآن مجيد کو جمع کرنے کي تاريخ کے مطابق قرآن مجيد کي آيات کي جگه کو خود پيغمبر (ص) نے مشخص کيا ھے، اصحاب کے سليقے کے مطابق يه کام انجام نھيں پايا ھے- يعني نازل ھونے والي ھر آيت کے بارے ميں خود آنحضرت (ص) فر ماتے تھے که اسے کھاں پر جگه ديں اور جو قرآن مجيد اس وقت ھمارے ھاتھوں ميں ھے، يه وھي قرآن مجيد ھے جسے عثمان کے زمانه ميں جمع کيا گيا ھے اور چونکه اس سلسله ميں قاريوں اور حافظوں کے ايک گروه اور کميٹي نے آپس ميں تعاون کيا ھے، اور اس کے علاوه ائمه اطھار (ع) نے بھي اس کي تائيد کي ھے، اس لئے نھيں کھا جاسکتا ھے که يه عثمان کا اپنا سليقه تھا که وه آيات کو جابجا کرتے-

حوالہ جات:
[1] شاکرين، حميد رضا، قرآن شناسي، ص 19، دفتر نشر معارف، طبع هفتم ، 1386. ھ ش
[2] درسنامه علوم قرآني، حسين، جوان آراسته، ص 198، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، قم، طبع سوم، سال 1378.ھ ش
[3]ايضا، ص 203.
[4] آموزش علوم قرآن، ترجمه التمهيد في علوم القرآن، محمد هادي معرفت، مترجم ابو محمد وکيلي، ج 1، ص 425، انتشارات مرکز طبع و نشر سازمان تبليغات اسلامي، قم، طبع اول،1371، ھ ش
[5]ايضا، ج 1، ص 433.
[6]ايضا، ج 1، ص 416.
[7] الاتقان في علوم القرآن، جلال الدين سيوطي، ج 1، ص 170، انتشارات عصريّه، طبع بيروت، سال 1408هـ
[8] محمد ابن محمود معروف به ابن جزري، النشر في القرائات العشر، ج 1، ص 8، انتشارات دارالکتب العلميه، طبع بيروت

Publish modules to the "offcanvas" position.