جواب خداوند عالم کي جانب سے انسان کے لئے بنائے جانے والے احکام وقوانين،انسان کے وجود کي ساخت ، کائنات کے حقائق اور تکويني کے مطابق هيں،چونکه مرد اور عورت کے وجود کي جسماني وروحاني ساخت مختلف هے لهٰذا دونوں کے احکام و فرائض بھي برابر نهيں هيں، قاضي کے پاس جاکر گواهي دنيا بھي ايک فريضه هے حقيقت کے مطابق هونا چاهئے اور احساسات جذبات اور دوسرے غير واقعي اسباب کے زير اثر نهيں هونا چاهئے تاکه کسي کا حق ضائع نه هو، اسي لئے بعض مواقع پر عورتوں کي گواهي سرے سے قبول نهيں هوتي جيسا که بعض مواقع پر بنيادي طور سے مرد کي گواهي بھي قبول نهيں هوتي اورکبھي کبھي دو عورت کي گواهي ايک مرد کي جگه قبول هوتي هے وغيره وغيره ۔ اس کے علاوه يه بھي پيش نظر هونا چاهئے که گواهي دينا ايک فريضه اور ذمه داري هے نه که ايک حق ۔ لهٰذا اگر بعض افراد کي گواهي عدالت ميں قبول نهيں کي جاتي ياکم قبول کي جاتي هے تو گويا يه ان کي ذمه داري اور فريضه کا آسان هونا هے نه که ان کے حقوق کو ضائع کرنا ۔
تفصيلي جواب: چند نکات کي طرف توجه حققيت تک رسائي ميں هماري مدد کرسکتي هے : ۱۔ بهت سے اسلامي حقوق اور جزاء سے متعلق مرد اور عورت ميں تفاوت هوتاهے مثال کے طور پر اگر کوئي مرد مرتد هوجاتاهے تو کچھ شرائط کے ساتھ اس کے لئے قتل کا حکم هے ليکن اگر عورت مرتد هوجائے تو اس کےقتل کا حکم نهيں هے يا اسلام نے کچھ فرائض و واجبات مردوں کے ذمه قرار دئے هيں جو عورت کے ذمه نهيں هيں يا عورتون کے لئے کچھ فرائض مقرر کئے گئے هيں جو مرد کے لئے مقر ر نهيں هوئے هيں۔اس اختلاف کي وجه مرد اور عورت کا خلقتي نظام هے اس لئے که مرد اور عورت کے نفسيات و اخلاق يکساں نهيں هيں اسي وجه سے خداوند عالم نے عورت کو ايک کام کے لئے پيدا کيا هے تومرد کو دوسرے مقصد کے لئے پيدا کيا هے ۔ يه دونوں هر چند ايک هي جنس سے هيں ليکن هر گز آپس ميں برابر نهيں هيں لهٰذا عدالت کا تقاضا يهي هے که دونوں کے فرائض و واجبات بھي يکساں نه هوں ۔ اس لئے که اگر يکساں هوں گے تو يه پروردگار عالم کي عدالت کے خلاف هوگا ۔ ۲۔ اسلام کي نظرميں گواهي دينا اور قاضي تک خبر پهنچا نا کوئي امتياز نهيں هيں بلکه ايک فريضه اور ذمه داري هے يعني دوسروں کے حقوق پائمال نه هونے کي خاطر اسلام نے اس فريضه کو ان انسانوں کے ذمه قرار ديا هے جو لوگوں کے اختلاف کي صورت ميں دقيق خبر رکھتے هيں تاکه قاضي کے حضور ميں واقعيت اور حقيقت بيان کريں اور اس کي گواهي ديں اور اسي لئے قرآن مجيد نے کتمان شهادت (گواهي نه دينے) کي حرمت کا اعلان کيا هے [۱] پس اگر عدالت ميں کسي کي گواهي قبول نهيں کي جاتي يا بهت کم قبول کي جاتي هے توگويا که اس کي ذمه داري اور مسؤليت آسان اور سبک هے نه کي اس کا حق ضائع کيا جا رها هے ۔ مسلم طور سے گواهي دينے کا فريضه مرد اور عورت کي خلقت ان کے نفسيات اور کردار سے براه راست مربوط هے ، هر چند ايک کے نقص اور دوسرے کے کمال سے اس کا کوئي تعلق نهيں هے ۔ اس لئے که بعض موارد ميں جهاں گواهي عورتوں کے مخصوص مسائل سے مربوط هے وهاں مردوں کي گواهي اصلاً قبول نهيں هے اس لئے که ان موارد ميں مرد گواه بن هي نهيں سکتا۔ اسي طرح بعض موارد ميں عورتوں کو گواهي دينے سے معاف کرديا گيا هے اور مردوں ميں منحصر کر ديا گيا هے اور بعض موارد ميں دو عورتوں کي گواهي ايک مرد کے برابر قرار دے کر اسے قبول کيا گيا هے ۔يه تمام قوانين نظام تشريع [٢] کے نظام تکويني[۳] سے هم آهنگ اور حمکت کي بنياد پر وضع هوئے هيں البته نظام تشريع اگر نظام تکويني فطرت کے مطابق اور اس سے هم آهنگ نه هوگا تو اس کي کوئي قدر و قميت بھي نه هوگي ۔ نظام تشريع کي قدر و قميت اور توانائي نظام تکويني ميں موجود ظر فيت سے مطابقت کي مقدار ميں هوئي هے ۔ نظام تکويني ميں مرد اور عورت کے درميان چند اعتبار سے بهت زياده فرق موجود هونے کي وضاحت: ۱۔ اعضاء و جوارح کے اعتبار سے : جنس مرد اور عورت کے اعضاء و جوارح مکمل طور پر ايک دوسرے سے مختلف هيں چاهے وه اعضاء و جوارح جنسي اور توليد مثل کے عضو سے مربوط هوں يا اس کے علاوه مرد اور عورت کے بدن پر بال کااگنا کھال کے نيچے چربي ، کھال کي ضخامت ، ظرفيت اور ساخت ، هڈيوں کا وزن اور اس کي شکل هڈيوں ميں موجود حياتي مادوں کي مقدار ، عضلات کا استحکام ، بازو کا زور ، بھيجه کا وزن ، حجم اور شکل و صورت، قلب کا وزن، نبض کي رفتار، فشار خون ، حرارت بدن ايک منٹ ميں سانس لينے کي تعداد، قد و قامت، وزن، آواز کا زير و بم، ترشحات بدن، خون کے اندر سفيد و سرخ ذرات کي مقدار ، پھيپھڑوں کا حجم اور گجائش اور دونوں جنسوں کا ابتدا ء ميں جسماني رشد و نمو خلاصه يه که مرد اور عورت کي هر چيز يهاں تک که ايک بال بھي اختلاف هے [۴]۔ ۲۔ خواهشات ، احساسات جذبات اوراخلاق کے اعتبار سے : اهل نفسيات کے نظريه کے مطابق محبت انفعالي اور جذباتي کردار اور مدد کرنا عورتوں کے خصوصيات ميں سے هے اس کے مقابله ميں ، سختي ، جنگ طلبي استقلال ، مقابله ، حاکميت اور سلطنت کو مردوں کے خصوصيات ميں شمار کرتے هيں [۵] جلوه نمائي، دل ربائي، زينت کرنا، کپڑے، سونے اور زينت کي چيزوں سے انس اور لگاؤ عورتوں کے امتيازات ميں سے هے [۶]۔ عورت تقليد کرنے، فيشن اپنا نے، تجمل کي طرف مائل هونے ،رونے اور هنسنے ميں مردوں سے آگے هے [۷] ۔ چونکه عورتوں کے اندر جذبات ومحبت کي توانائي زياده هوتي هے لهٰذا وه اس قسم کے مناظرسے زياده متاثر هو جاتي هيں [۸] ۔ جب تکويني ميدان ميں يه خصوصتيں موجود هيں تو تشريعي ميدان ميں استحکام کے لئے (خاص کو حق الناس سے مربوط) کوئي نه کوئي چاره سونچنا چاهئے تاکه گواهوں ميں لوگوں کے حقوق ضائع نه هوں يهاں تين صورتيں قابل تصور هيں : الف: جذبات، پيار و محبت کے غلبه کي وجه سے جو بعض جذباتي وهيجاني امور ميں عورتوں کے لئے فراموشي کا زمينه فراهم کرتےهيں، اسي طرح جو يه کها جاتاهے که عورتيں هر مسئله ميں بهت جلد اطمينان کرليتي هيں اور جلدي سے يقين کرليتي هيں اور آساني سے متأثر هوجاتي هيں لهٰذا هميں کهنا پڑے گاکه عورتوں کي گواهي کي کوئي قدر وقيمت نهيں هے تاکه اس گواهي کے ذريعے لوگوں کے حقوق ضائع نه هوں ۔ يه بات ممکن هے دوسرے لحاظ سے دوسروں کے حقوق ضائع هونے کا سبب بنے اور وه ان موارد ميں گواهي دينا هے جب بات اور خبر عورتوں سے مخصوص هو۔ ب: هم يه کهيں که تمام موارد ميں عورتوں کي گواهي مردوں کي طرح اور اسي مقدار ميں معتبر هے، يه قول اس کا باعث هوگا که مذکوره موارد کے سبب فيصله کا اعتبارکم هو جائے اور ايک طرح سے لوگوں کے حقوق ضا ئع هوں ۔ ج:معتدل حل: خداوند عالم جس نے انسان کو پيدا کيا اور رازوں سے با خبر هے فرماتاهے وه امور جو لوگوں کے حقوق (حق الناس نه که حق [الله]) سے مربوط هيں ان ميں عورتوں کي گواهي معتبر سمجھي جائے، ليکن استحکام کي خاطر جهاں ايک مرد گواه ضروري هے وهاں دو عورت اور جهاں دو مرد گواه ضروري هيں وهاں چار عورتوں کي گواهي کچھ شرائط کے ساتھ معتبر اور قابل قبول هے ۔ اور يهي تيسرا نظر يه اور حل جو عين عدالت اور تکويني يعني فطرت کے مطابق هے اسلام نے قبول کيا هے ۔
منابع اور مآخذ: [۱] سوره بقره ٢۸۳ ۔ [٢] تشريع نظام، يعني وه قوانين جو انسان کي اختياري نقل وحرکت سے مربوط هيں ۔ [۳] تکويني نظام، يعني وه قوانين، وظائف اور ذمه دارياں جو خلقت کي وجه سے انسان پر حکم فرماں هيں اور انسان کے اختيار سے مربوط نهيں هيں اس ميدان ميں دونوں (نر اور ماده) جنسوں کے لئے ان کے امکانات سے هم آهنگ خاص فرائض کو مد نظر رکھا گيا هے اس طرح که اس کا انکار کرنا کسي بھي فرد سے قابل قبول نهيں هے ۔ [۴] پاک نژاد سيد رضا ، اولين دانشگاه وآخرين پيامبران ج، ۱۹، ص ٢۸۰ ۔ ٢۹۳ [۵] روانشناسي رشد ج اول ص ۳۳۰ از انتشارات سمت ۔ [۶] پاک نژاد سيد رضا گزشته حواله ص ٢۸۱ ۔ [۷] گذشته حواله ص ٢۹۵ ۔ [۸] کتاب نقد ، ش ۱٢ ص ۵۹ ۔