بعض وقت کواتین کے درمیان یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض روایتوں میں عورت کی مذمت کیوں ہوئی ہے اور اسے ناقص العقل کیوں کہا گیا ہے؟
جواب: اول یہ کہ:روایتوں میں یہ مذمت عورت کے اصل وجود سے متعلق نہیں ہے اس لئے کہ قرآن کریم کی نظر میں مرد اور عورت دونوں کا وجود ،کامل ہے ،مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے بلکہ یہ مذمت فقط بعض عورتوں سے متعلق ہے ۔در حقیقت یہ مذمت مردوں کے لئے ایک یاددہانی ہے کہ وہ بے تقویٰ اور گنہگار عورتوں کے فریب سے بچیں،اس بناء پر یہ مذمت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں بلکہ مردوں سے بھی مربوط ہے ،جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ منافق ،شریر، بدمعاش ،احمق ،حاسد،بخیل ،جھوٹے اور فاسد لوگوں کی ہمنشینی اختیار نہ کی جائے اور ان سے مشورہ نہ لیا جائے یہ ایک ایسا عقلی قانون ہے کہ جسے دنیا میں تمام عقلمند انسان قبول کرتے ہیں کہ اگر کوئی سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے تو اس طرح کے لوگوں سے دوری اختیار کرے۔
لہٰذا مرداور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگر چہ مرد کی بہ نسبت عورت کے اندر کشش اور جاذبہ زیادہ پایاجاتا ہے ،مگر اسلام سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ صرف ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو عورت کی مذمت میں آئی ہے پھر بھی سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔
خلاصۂ مطلب: جب ہم قرآن کریم کی آیتوں اور روایتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو متوجہ ہوتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں بہادر مومن مرد ہیں اسی طرح بہادر مومنہ عورتیں بھی ہیں جس طرح مردوں میں شریر افراد پائے جاتے ہیں اسی طرح شریر،عورتوں میں بھی ہیں جبکہ مردوں کی شرارت عورتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ،چونکہ قدرت وطاقت مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے عام طورسے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں جہاں بھی عورتوں کی جانب سے ایک جرم سرزد ہوتا ہے اسے کئی مرتبہ فاش کیا جاتا ہے جبکہ مردوں کے جرائم کا مقائسہ عورتوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دوسرے یہ کہ:بعض روایتوں میں یہ مذمت زمانے کے ایک خاص حصہ میں بعض عورتوں سے متعلق ہے اور یہ عورتوں ہی سے مخصوص نہیں ہے اس کے لئے زمانے کے ایک خاص حصہ میںبعض مرد یابعض شہروں کے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ مذمت دلیل نہیں ہے کہ عورت یا مرد یا فلاں شہر ہمیشہ کے لئے قابل مذمت ہو اور اس کے برعکس بعض روایتوں میں بعض شہروں کے لوگ اچھائی کے ساتھ یاد کئے گئے ہیں تو یہ دلیل نہیں ہے کہ ان شہروں کے لوگ ہمیشہ کے لئے نیک اور متقی ہوں، بعض عورتوں کے متعلق یہ مذمتیں بصورت موقت ہیں۔
تیسرے یہ کہ: کہا گیا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ عورت عقل کے لحاظ سے نقص رکھتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم مرد کا عورت سے مقائسہ کرتے ہیں تو مرد کو عورت سے سخت اور محکم پاتے ہیں اور قد کے لحاظ سے وہ عورت سے بلند ہے اور عورت مرد سے بہت نازک اور قد کے اعتبار سے چھوٹی ہے ،ان اسی کی بہ نسبت اس کا مغز مرد کے مغز سے بہت چھوٹا ہے ۔ اسی بنیاد پر فقیہ عالیقدر آیت اللہ شہید مطہری فرماتے ہیں:
''متوسط مرد کا مغز متوسط عورت کے مغز سے بڑاہوتا ہے لیکن عورت کے تمام جسم کی بہ نسبت اس کا مغز مرد کے مغز سے بڑا ہے ،اس بناء پر عورت ایک ناقص العقل وجود کا نام نہیں ہے ''۔
چوتھے یہ کہ:اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عقل کا ایک معنی اجرائی امور میں فکر وتدبر کرنا ہے اور ایک طرف اجرائی منصب بہت مشکل اور سخت ہے ،عورت کے لطیف اور نازک جسم کے مناسب نہیں ہے لہٰذا خداوند حکیم نے اجرائی امور میں اس کے فکر وتدبر کی قدرت وطاقت کی بہ نسبت اسے بہت کم ودیعت کی ہے اس لئے کہ اجرائی منصب کوئی ایسامقام نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے عورت کی شان وشوکت میں کوئی کمی پیداہو،وہ مرد ہی ہے جو سب سے زیادہ اجرائی امور اوراجتماعی کاموں سے سروکار رکھتا ہے اور دوسری طرف چونکہ عورت خانوادہ اور سماج میں فطرت کے مطابق تربیت اور اخلاق کی بنیاد ہے اسی لئے مرد کی بہ نسبت اس کی محبت کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
مرد کی بہ نسبت عورت کی میراث آدھی کیوں ہے؟
حسن رضا قمی جلال پوری خواتین بالخصوص علم حاصل کرنے والی لڑکیاں عام طور سے یہ سوال کرتی ہیں کہ مرد کی بہ نسبت عورت کی میراث آدھی کیوں ہے؟کیا یہ عدالت کے مطابق ہے اوریہ عورت کے حقوق پرظلم نہیں ہے؟
جواب:اول یہ کہ ہمیشہ ایسانہیں ہے کہ مرد،عورت کی میراث سے دو گنا میراث پائے،بلکہ بعض وقت مرد اورعورت دونوں برابر میراث پاتے ہیں منجملہ میت کے ماں باپ دونوں میراث کاچھٹاں حصہ بطورمساوی پاتے ہیں،اسی طرح ماں کے گھرانے والے خواہ عورتیں ہوں یامرددونوں بطور مساوی میراث پاتے ہیں اوربعض وقت عورت پوری میراث پاتی ہے ...
دوسرے یہ کہ: دشمن سے جہادکرنے کے اخراجات مردپرواجب ہوتے ہیں جب کہ عورت پریہ اخراجات واجب نہیں ہیں ۔
تیسرے یہ کہ: عورت کے اخراجات مردپر واجب ہیں اگرچہ عورت کی درآمد بہت اچھی اورزیادہ کیوں نہ ہو۔
چوٹھے یہ کہ:اولاد کے اخراجات چاہے وہ خوراک ہویالباس وغیرہ ہوں،مردکے ذمہ ہے ۔
پانچویں یہ کہ:اگر عورت مطالبہ کرے اورچاہے توبچوں کوجودودھ پلاتی ہے وہ شیربہا (دودھ پلانے کاہدیہ)لے سکتی ہے ۔
چھٹے یہ کہ:ماں باپ اوردوسرے افرادکے اخراجات کہ جس کی وضاحت رسالۂ عملیہ میں کی گئی ہے،مرد کے ذمہ ہے ۔
ساتویں یہ کہ:بعض وقت دیہ (شرعی جرمانہ)مردپرواجب ہے جب کہ عورت پرواجب نہیں ہے اوریہ اس وقت ہوتاہے کہ جب کوئی شخص سہواً جنایت کا مرتکب ہو،تو اس مقام پرمجرم کے قرابتداروں (بھائی،چچااوران کے بیٹوں)کوچاہیئے کہ دیہ ادا کریں ۔
آٹھویں یہ کہ:شادی کے اخراجات کے علاوہ شادی کے وقت مرد کو چاہیئے کہ عورت کو مہر بھی ادا کرے ۔
اس بناء پرزیادہ تر مرحلوں میں مردخرچ کرنے والااورعورت اخراجات لینے والی ہوتی ہے،اسی وجہ سے اسلام نے مرد کے حصہ کوعورت کی بہ نسبت دو گناقرار دیاہے تاکہ تعادل برقراررہے اوراگر عورت کی میراث مرد کی میراث سے آدھی ہوتویہ عین عدالت ہے اوراس مقام پرمساوی ہونا مرد کے حقوق پر ظلم ہے ۔
اسی بناء پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:ماں باپ اوراولاد کے اخراجات مرد پر واجب ہیں۔
حضرت سے پوچھا گیاکہ عورت کی بہ نسبت مرد کی میراث دو گنا کیوں ہوتی ہے؟حضرت نے فرمایا:اس لئے کہ عاقلہ کا دیہ ،زندگی کے اخراجات،جہاد،مہر اوردوسری چیزیں عورت پر واجب نہیں ہیں جب کہ مرد پر واجب ہیں ۔
جب حضرت امام علی رضا ـسے پوچھاگیاکہ عورت کی میراث کے آدھی ہونے کی علت کیاہے،توآپ نے فرمایا:اس لئے کہ جب عورت شادی کرتی ہے تو اس کاشمار (مال)پانے والی میں ہوتا ہے جب کہ مرد کا شمار خرچ کرنے والوں میں ہوتا ہے،اس کے بعد امام نے سورۂ نساء آیت نمبر٣٤کودلیل کے طور پر پیش کیا۔