سوال
نفس، روح، جان، عقل،اور ذہن و فطرت کے درمیان کیسا رابطہ ہے؟ اس رابطہ کو کیسے بیان کرسکتے ہیں؟ ہم ان میں سے کونسی چیز ہیں؟
تفصیلی جوابات
کبھی ان الفاظ کا مراد ایک ہی چیز ہےاور تمام اشارے ایک حقیقت کی طرف ہیں یعنی وہی وجود اور انسان کی حقیقت، چنانچہ فلاسفہ کہتے ہیں: جس گوہر کی طرف لفظ"میں" یا اس کے مانند الفاظ سے اشارہ کیا جاتا ہے، اس کے مختلف نام ہیں، مثال کے طور پر نفس، نفس ناطقہ، روح، عقل، قوہ عاقلہ، قوہ ممیّزہ، حیات، جان، دل اور ورقا وغیرہ۔ [1] فلسفی لحاظ سے یہ استفادہ صحیح ہے، چونکہ نفس،عین وحدت و یگانگی کے باوجود تمام قوا اور مراتب کے ساتھ عینیت اور اتحاد رکھتا ہے اور ملاہادی سبزواری[2] اور حکیم صدر المتالہین کی تعبیر میں:" النفس فی وحدتھا کل القوی۔"[3]
کبھی ان الفاظ سے مختلف معنی ارادہ کئے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک، نفس کے مختلف مراتب و مقامات کی طرف اشارہ ہیں۔ وضاحت یہ کہ، عرفاء معتقد ہیں کہ نفس کے کچھ مراتب ہیں اور ان مراتب میں سے ہر ایک کا ایک خاص نام ہے، اس کے بعد سات شہرعشق کا نام لیتے ہیں اور کبھی" لطائف سبع" کی تعبیرپیش کرتے ہیں جیسا کہ جامی جیسے عارف، شیخ عطار کے بارے میں کہتے ہیں:
ہفت شہر عشق را عطار گشت ماہنوز اندر خم یک کوچہ ایم
(عطار نے سات شہر عشق کی سیر کی اور ہم ابھی ایک کوچہ کے خم و پیچ میں پھنسے ہیں)
یہ سات مراتب یوں ہیں: 1۔ طبع 2۔ نفس ۔3۔ قلب 4۔ روح 5۔ سر ۔6۔ خفی 7۔ اخفی
عرفاء، نفس ناطقہ انسانی کو اس لئے "طبع" کہتے ہیں کہ یہ حرکت و سکون کا مبدا ہے، اور اس اعتبار سے کہ مبداء ادراکات کے لئے ایک جزو ہے، اس لئے اسے "نفس" کہتے ہیں، اور اس لحاظ سے کہ کلی ادراک کے لئے مبداء ایک تفصیل ہے، اس لئے اسے "قلب" کہتے ہیں، اور اس لحاظ سے کہ صاحب ملکہ وسیع ہے ادراک کلی تفصیلی کو خلق کرتا ہے اس لئے اسے "روح" کہتے ہیں اور اس کے فنا ہونے کے اعتبار سے، عقل فعال میں اسے"سر" کہتے ہیں،اور مقام واحدیت میں اس کے فنا ہونے کے اعتبار سے اسے "خفی" کہتےہیں اور مرتبہ احدیت میں اس کے فنا ہونے کے اعتبار سے اسے"اخفی" کہتے ہیں۔
فلاسفہ نے بھی کہا ہے کہ نفس کے سات مراتب ہیں: 1۔ عقل ہیولائی 2۔ عقل با لملکہ 3۔ عقل بالفعل 4۔ عقل مستفاد 5۔ محو 6۔ طمس 7۔ محق۔
وضاحت: فلاسفہ کی نظر میں نفس، اس اعتبار سے کہ کمالات حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے، اسے "عقل ہیولائی" کہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے کہ اگر معقولات اولی اور علوم اولیہ کا ایک سلسلہ حاصل کرسکے" اس کے ذریعہ معقولات ثانیہ اور علوم اکتسابی کو کسب کریں تو اسے " عقل بالملکہ" کہا جاتا ہے۔ اور اس لحاظ سے کہ ہر وقت اکتساب علوم کی راہ سے (فکر یا حدس) استنباط معقولات ثانیہ اور علوم مکتبہ پر قدرت پیدا کرے تو اسے " عقل بالفعل" کہا جاتا ہے۔ اور ان علوم و عقول کے حضور و حصول کے اعتبار سے عقل فعال سے استفادہ کیا ہے اس لئے اسے " عقل مستفادہ، کہتے ہیں۔ ۔"محو" مقام توحید افعالی ہے،"طمس" مقام توحید صفاتی ہےاور " محق" مقام توحید ذاتی ہے۔ [4]
روایتوں میں بھی بعض اوقات اس قسم کی تقسیم بندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[5] چنانچہ لفظ " روح" فلسفی اور عرفانی کتابوں میں مختلف صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔[6] یہاں پر ہم روح کے چند استعمالات کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ نفس ناطقہ
2۔ جان حیوانی
3۔ "عقل مجرد" اس لحاظ سے"عقل اول" کو" روح القدس" کہا جاتا ہے۔
4۔ " مقام یوم الجمع انسان" ، یہ فوق مقام قلب (یوم الفصل انسان) ہے۔
5۔ مرتبہ" عقل سبط" کہ ملکہ خلاق تفاصیل معقولات ہے اور مرتبہ" عقول تفصیلی"( معقولات مفصلہ یا قلب) کے مقابلے میں ہے۔[7]
6۔ "شعاع خارج ازچشم" ریاضی دانوں کے نظریہ کے مطابق، ابصار کے بارے میں ہے ۔
7۔ " جسم لطیف" اور یا "روح بخاری"۔[8]
البتہ لفظ" دھن" کے بارے میں قابل بیان ہے کہ کبھی اس کا مراد وہی عقل یا قوہ عاقلہ ہے اور کبھی مراد قوہ خیال یا متخیّلہ ہے اور کبھی مراد قوہ حافظ ہے۔[9] چنانچہ لفظ "فطرت" کے بارے میں بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ کبھی اس کا مراد وہی روح اور انسان کی حقیقت ہے اور کبھی اس کا مراد مجموع شناخت اور میلانات ہیں جو فرد میں موجود ہوتے ہیں۔[10]
جس طرح کبھی روح و جان کے بارے میں کہتے ہیں کہ جان سےمراد روح بخاری ہے اور روح سے مراد نفس ناطقہ انسانی ہے۔[11]
[1]۔ حسن زاده آملی، حسن، معرفت نفس، دفتر اول، ص 84.
[2]۔ النفس في وحدتها كلّ القوى و فعلها في فعله قد انطوى.(حكيم سبزواري، منظومه، ج 5، ص 181 و182).
[3]۔ فصل في بيان أن النفس كل القوى بمعنى أن المدرك بجميع الإدراكات المنسوبة إلى القوى الإنسانية هي النفس الناطقة و هي أيضا المحركة لجميع التحريكات الصادرة عن القوى المحركة الحيوانية و النباتية و الطبيعية و هذا مطلب شريف و عليه براهين كثيرة بعضها من جهة الإدراك و بعضها من جهة التحريك و التي من جهة الإدراك نذكر منها ثلاثة البرهان الأول من ناحية المعلوم... اسفار، ج 8، ص 221.
[4]۔ حسن زاده آملی، حسن، سرح العیون، 569؛ نامه ها بر نامه ها، ص121و 122.
[5]۔ الخصال] الذِّكْرُ مَقْسُومٌ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ اللِّسَانِ وَ الرُّوحِ وَ النَّفْسِ وَ الْعَقْلِ وَ الْمَعْرِفَةِ وَ السِّرِّ وَ الْقَلْبِ وَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهَا يَحْتَاجُ إِلَى الِاسْتِقَامَةِ فَاسْتِقَامَةُ اللِّسَانِ صِدْقُ الْإِقْرَارِ وَ اسْتِقَامَةُ الرُّوحِ صِدْقُ الِاسْتِغْفَارِ وَ اسْتِقَامَةُ الْقَلْبِ صِدْقُ الِاعْتِذَارِ وَ اسْتِقَامَةُ الْعَقْلِ صِدْقُ الِاعْتِبَارِ وَ اسْتِقَامَةُ الْمَعْرِفَةِ صِدْقُ الِافْتِخَارِ وَ اسْتِقَامَةُ السِّرِّ السُّرُورُ بِعَالَمِ الْأَسْرَارِ فَذِكْرُ اللِّسَانِ الْحَمْدُ وَ الثَّنَاءُ وَ ذِكْرُ النَّفْسِ الْجَهْدُ وَ الْعَنَاءُ وَ ذِكْرُ الرُّوحِ الْخَوْفُ وَ الرَّجَاءُ وَ ذِكْرُ الْقَلْبِ الصِّدْقُ وَ الصَّفَاءُ وَ ذِكْرُ الْعَقْلِ التَّعْظِيمُ وَ الْحَيَاءُ وَ ذِكْرُ الْمَعْرِفَةِ التَّسْلِيمُ وَ الرِّضَا وَ ذِكْرُ السِّرِّ عَلَى رُؤْيَةِ اللِّقَاءِ . بحارالأنوار، ج90، ص154.
[6]۔ سرح العیون، ص 266.
[7]۔ بظاہر چوتھا اور پانچواں استعمال ایک ہی ہے۔
[8]۔ هزار و یك نكته، ص 81 - 83.
[9]۔ خیال: دوسراقوہ مدرکہ باطنی ہے، حس مشترک نے جن صورتوں کو درک کیا ہے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ قوہ انبار، حقیقت میں حس مشترک کا خزانہ ہے۔ قوی خیال، حس مشترک کا خزانہ ہونے کے علاوہ خزانہ قوہ منصرفہ بھی ہے۔ کبھی قوہ خیال کو "مصورہ" اور" متخیّلہ" کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ حافظ: ایک ایسی طاقت ہے جو جزئی معانی کی حفاظت کرتی ہے۔ حقیقت میں یہ قوہ واہمہ کا خزانہ ہے۔ اس قوہ کو "ذاکرہ" اور " مسترجعہ" بھی کہاجاتا ہے۔ ان الفاظ میں کہ چونکہ معانی کو حفظ کرتا ہے اس لئے "حافظہ" کہتے ہیں اور کبھی فوری یاد دہانی کرتا ہے اس لئے "ذاکرہ" کہتے ہیں اور کبھی رک کر یاد دہان کرتا ہے، اس لئے اسے " مسترجعہ" کہتے ہیں۔ ابن سینا، النفس من الشفا ، ص 235 و 239؛ اشارات، ج 2، ص 341؛ صدرا، اسفار، ج 8، ص 215؛ سبزواری، اسرار الحكم، ص 308 و 309؛ حسن زاده آملی، سرح العیون، ص 392 .
[10]۔ مصباح یزدی، آموزش عقاید، ص 44، طبع هفتم، شرکت طبع و نشر بین الملل، بی جا، 1381.
[11]۔ ذكره الشيخ في بعض رسائله بلغة الفرس بهذه العبارة روح بخارى را جان گويند و نفس ناطقه را روان. صدرا، اسفار الاربعة، ج 8، ص251.
سوال
"موعظہ" اور " نصیحت" کے درمیان کیا فرق ہے؟
ایک مختصر جواب
1۔ "موعظہ" اور" نصیحت" کسی حدتک مترادف ہیں۔روایت میں آیا ہے: الموعظة نصیحة شافیہ"[1] " موعظہ ایک شفا بخش نصیحت ہے۔" اس روایت میں موعظہ، یعنی وہ چیزیں بیان کرنا جو سننے والے کے دل کو نرم کرے، مثال کے طور پرثواب و عقاب بیان کرنا، یہ موعظہ، ایک ایسی نصیحت ہے جو نفسانی اور روحانی بیماریوں کو شفا بخشتی ہے۔
نصیحت، " نصح" سے خالص ہونے کے معنی می ہے، یعنی یہ کہ واعظ موعظہ کرتے وقت مخلص ہونا چاہئے اور ہدایت و راہنمائی اور اصلاح کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا ہو، اسی کو موعظہ کہتے ہیں۔
2۔ لیکن عمیق تر نظر ڈالنے سے ان دو الفاظ کے درمیان کچھ تفاوتوں کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے:
الف) " موعظہ"، یعنی انسانوں کے جذبات سے استفادہ کرنا، کیونکہ موعظہ اور نصیحت اکثر جذباتی پہلو رکھتے ہیں کہ انھیں اکساکر لوگوں کی بڑی تعدا کو حق کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔[2]
تربیت کا طریقہ، موعظہ ہے، موعظہ، تعلیم ، تقریر اور برہان سے انجام دینے میں فرق ہے اور اس میں خاص اثر ہوتا ہے۔ موعظہ کے وقت سننے والے پر کلام ایسے اثر ڈالتا ہے کہ اس کے قلب پر اثر اانداز ہوکر اس میں رقت انگیز ا باصفا اور نورانی حالت پیدا ہوتی ہے اگر چہ موعظہ اکثرا خطاب کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے اوراور عقلی براھین سے استفادہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا اثر عقلی استدلالوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
موعظہ، انسان کی فطرت کو بیدار کرتا ہے اور دل نشین ہوتا ہے اور دلیل برہان، اور امرو نہی سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ پندو نصیحت کو قبول کرنا ایک ایسی استعداد ہے کہ انسان کی جان میں موجود ہے اور تربیت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص دوسروں کی تعلیم و تربیت سے بے نیاز ہو لیکں کوئی ایسا نہیں ہے جو موعظہ سے بے نیاز ہو۔ حتی کہ دانشور اور صالح افراد بھی کبھی کبھی موعظہ کے محتاج ہوتے ہیں۔
اسلام بھی موعظہ کو ایک مفید اور موثر امر جانتا ہے اور اس کی قدر و منزلت اور اہمیت کے بارے میں بہت سی آیات و روایات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:" ایھا الناس! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت " قرآن" آچکا ہے"۔[3]
امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:" موعظہ، انسان کے نفوس کو صاف اور نورانی کرتا ہے۔"[4]
3۔ نصیحت، جیسا کہ کہا گیا : خالص ہونے اور خالص کرنے کے معنی میں ہے۔ پند کو اس لحاظ سے " نصح" اور " نصیحت" کہتے ہیں کہ خلوص نیت اور محض خیر خواہی پر مبنی ہوتی ہے۔[5]
قابل ذکر ہے کہ اجتماع میں نصیحت کرنا مناسب نہیں ہے اور کبھی اس کی حالت سرزنش کی جیسی ہوتی ہے: نصک بین العلماء تقریع"[6] اس بنا پر نصیحت خلوت میں کی جانی چاہئیے اور اجتماع یں نصیحت کرنا مومن کے لئے سرزنش، اذیت و آزار ہے۔[7]
[1] ۔ لیثی واسطی، علی، عیون الحکم و المواعظ، ص 497، قم، دار الحدیث، طبع اول، 1376ش.
[2] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 11، ص 455 - 456، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع اول، 1374ش.
[3] ۔ یونس، 57.
[4] ۔ تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ص 72، قم، دار الکتاب الإسلامی، طبع دوم، 1410ق.
[5]۔ قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 7، ص 71، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع ششم، 1371ش.
[6] ۔ عیون الحکم و المواعظ، ص 497.
[7] ۔ آقا جمال خوانساری، محمد، شرح بر غرر الحکم و درر الکلم، ج 6، ص 173، دانشگاه تهران، طبع چهارم، 1366ش.