"يوگا" کا مکتب، جس کے شائقين ہندوستان ميں پائے جاتے ہيں، کيا ہے؟

سوال
"يوگا" کا مکتب، جس کے شائقين ہندوستان ميں پائے جاتے ہيں، کيا ہے؟


جواب
"يوگا" نامي مکتب ايک قسم کا تصوف ہے جو نجات کو مادي اشتياقات ترک کرکے مکمل طور پر روح کي طرف توجہ دينے، ميں منحصر سمجھتا ہے۔ يہ لوگ اس مقصد کے حصول کے لئے جان فرسا مجاہدتيں اور رياضتيں "تپسيا" انجام ديتے ہيں اور ان کا عقيدہ ہے کہ اس طرح سرکش نفس کو لگام دينا ممکن ہوجاتا ہے۔
يوگا کے مکتب ميں سب سے اعلي مقصد و ہدف روح کو دنيا سے الگ کرنا اور اس کو اس کے اپنے عالم يعني برہمن يا خدائے عالم سے متصل کرنا ہے اور کہتے ہيں کہ ہدف صرف تنہائي ميں زندگي بسر کرنے سے ممکن ہوجاتا ہے!
يوگا کا فلسفہ شرک اور ثنويت يا دوگانہ پرستي سے البتہ آزادي حاصل نہيں کرسکا ہے اور بالآخر اس فلسلفے کے پيروکاروں کا عقيدہ ہے کہ مادي دنيا ـ جو نقص اور تضاد سے بھرپور ہے ـ کا خالق عالم ارواح اور بے عيب و بے نقص موجودات کے خالق سے الگ ہے!
البتہ تپسيا يا رياضت صرف يوگا کے مکتب تک ہي محدود نہيں ہے اور ہندوستان ميں دوسرے مکاتب اور مذاہب بھي پائے جاتے ہيں جو اپنے نفس پر تسلط پانے يا دوسرے مقاصد کے حصول کي غرض سے پرمشقت تسپيا کا سہارا ليتے ہيں؛ اس لحاظ سے ملک ہندوستان کو تپسيا والوں کا ملک کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کے انتہا پسند مکاتب کو اسلام مسترد کرتا ہے۔ اسلام راہ نجات کو مادي اشتياقات ترک کرنے ميں قرار نہيں ديتا؛ بلکہ ان اشتياقات کو معنوي کمالات تک پہنچنے کا وسيلہ سمجھتا بشرطيکہ اعتدال اور ميانہ روي کو ملحوظ رکھا جائے۔ اسلام نقساني خواہشات پر تسلط کے لئے مادي خواہشات کو ترک کرنے سے مشروط نہيں کرتا۔
اسلام تپسيا اور پر مشقت جسماني رياضتوں کو رد کرتا ہے اور ان اعمال کو ممنوع اور حرام کرچکا ہے۔ ثنويت يا دوگانہ پرستي اور ہر وہ عقيدہ جس سے شرک کي بدبو آتي ہو، اسلام کے نزديک شدت سے رد کيا جاتا ہے۔ اور "اللہ تعالي" کو تمام دنياؤں اور تمام دنياؤں ميں موجودہ مخلوقات و موجودات کا واحد اور بلا شريک خالق سمجھتا ہے۔

منابع اور مآخذ:
ماخذ:پاسخ به پرسش هاي مذهبي؛آية اللّه العظمي مکارم شيرازي،حضرت آية اللّه جعفر سبحاني؛انتشارات نسل نعمت.

Publish modules to the "offcanvas" position.