قرآن مجید کی جن آیات میں لفظ "بروج" آیا ہے، ان آیات کے بظاہر معنی یہ ہیں کہ خداوندمتعال فرماتا ہے: " اور ہم نے آسمان {زمین کے اوپر والی جہت} میں بروج اور قصر{کہ وہ سورج اور چاند ہیں} بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کردیا۔" یہ لفظ بھی اپنے قدیمی معنی، کہ وہی برج اور مستحکم و محصور قلعے ہیں، میں استعمال ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کو استعمال کیا گیا ہے، اور آج کل کے فلک بوس برجوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے، جو پوری دنیا میں خاص زینت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
تفصیلی جوابات لفظ "بروج" ، "برج" کی جمع ہے اس کے معنی وہ بلند ٹاور ہیں، جو قلعوں کے چار کونوں پر تعمیر کیے جاتے ہیں تاکہ ان ٹاوروں سے دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکے اور اسے بھگا دیں۔ اس لفظ کے اصلی معنی ظہور ہے اور " التبرج بالزینتہ" یعنی اظہار زینت ہے[1]۔ اس طرح اس کے معنی ہر وہ چیز ہے جو معلوم و ظاہر ہو۔ اگر اسے زیادہ تر خوبصورت محلوںمیں استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ اس لیے ہے کہ محل، دیکھنے والوں کے لیے نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں[2]۔ اور آیہ شریفہ سے بھی یہی معنی مراد ہے کہ ارشاد ہوتا ہے : "وَلَقَدْجَعَلْنافِیالسَّماءِبُرُوجاًوَزَيَّنَّاهالِلنَّاظِرِينَ..."[3] آیہ شریفہ " والسماء ذات البروج" میں آسمان کی قسم کھائی گئی ہے جو برجوں {سورج اور چاند}[4] میںمحفوظ کیا جاتا ہے[5]۔ اس بنا پر، جن آیات میں "بروج" آیا ہے کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ : " ہم نے آسمان {زمین کے اوپر والی جہت} میں بروج اور قصر {کہ وہی سورج اور چاند کے مقام ہیں} بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کردیا۔[6]" البتہ بعض مفسرین نے "بروج" کے وہی علم نجوم کے سال کے بارہ اصطلاحی برجوں کے معنی لیے ہیں[7]۔ آیہ شریفہ: "أَيْنَما تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فی بُرُوجٍ مُشَيَّدَة[8]" حقیقت میں مثال ہے، اور قرآن مجید ان چیزوں کی مثال پیش کرنا چاہتا ہے کہ انسان ان سے اپنے آپ کو نامناسب حالات اور خطرات سے محفوظ رکھے، اور اس کے یہ معنی ہیں کہ موت ایک ایسا مقدر ہے کہ کوئی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے، اگرچہ اس سے بچنے کے لیے مضبوط ترین پناہ گاہوں میں بھی پناہ لے لے[9]۔ کوئی چیز، حتی کہ مستحکم بروج بھی موت کو نہیں روک سکتے ہیں، اس کی وجہ بھی ظاہر ہے، کیونکہ موت، تصور کے برخلاف، انسان کے باہر سے نفوذ نہیں کرتی ہے، بلکہ عام طور سے اس کا سرچشمہ انسان کے اندر ہوتا ہے، کیوں کہ بدن کے مختلف نظام خواہ نخواہ محدود ہوتے ہیں اور ایک دن ختم ہو جاتے ہیں، لیکن غیر طبیعی موتیں انسان کے باہر سے آتی ہیں اور طبیعی موت اندر سے، لہذٰا، مستحکم برج اور استوار قلعے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے ہیں۔ صحیح ہے کہ مستحکم قلعے کبھی غیر طبیعی موت کو روکتے ہیں، لیکن آخرکار کسی اور دن طبیعی موت سے انسان دوچار ہوتا ہے[10]۔ خلاصہ یہ کہ یہ لفظ بھی اپنے قدیمی معنی، کہ وہی برج اور مستحکم و محصور قلعے ہیں، میں استعمال ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کو استعمال کیا گیا ہے، اور آج کل کے فلک بوس برجوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے، جو پوری دنیا میں خاص زینت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
[1]. طباطبائی، سید محمد حسین، الميزان فی تفسیر القرآن، ترجمه، موسوی، سید محمد باقر، ج 5، ص 6، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1374ھ ش. [2]. ایضاً، ج 20، ص 413. [3]. حجر، 16. [4]. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، محقق و مصحح: حسینی، سید احمد، ج 2، ص 276، نشر کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع سوم، 1416ھ. [5]. ترجمه الميزان فی تفسیر القرآن، ج 20، ص 413. [6]. طبع، ج12، ص 202؛ مجمع البحرین، ج 2، ص 276. [7]. آلوسى، سيد محمود، روح المعانى فى تفسير القرآن العظيم، تحقيق: عطية، على عبدالبارى، ج 15، ص 294، دارالكتب العلمية، بیروت، طبع اول، 1415ھ. [8] نساء، 78: " تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پا لے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہو جاو۔". [9] ترجمه الميزان فی تفسیر القرآن، ج 5، ص 6. [10] مکارم شیرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 4، ص 19، دار الکتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374 ھ ش.