حديث کساء کى اہميت ھے ؟

سوال

حديث کساء کى اہميت بيان فرمايئے ؟


 جواب :
حديث کساء، جو احاديث کى کتابوں اور شيخ عباس قمى کى مفاتيح الجنان ميں درج ہے، دولحاظ سے اہميت رکهتى ہے: اولا:ولايت وامامت کا مسئلہ اور ثانيا: عصمت کا مسئلہ-
اس حديث کے ذريعہ اہل بيت (ع) کى امامت و ولايت ثابت ہوتى ہے- پيغمبر اکرم (ص) اس حديث ميں نقل شدہ، اپنے خاص قول و فعل کے ذريعہ امامت و ولايت کو اپنے اہل بيت (ع) سے مخصوص شمار کرتے ہيں- اپنے اہل بيت (ع) کو ايک ايسے گهر ميں کساء کے نيچے قرار دينا، جہاں پر اہل بيت (ع) کے علاوہ کوئى نہيں ہے، ايسے جملات بيان فرمانا، جو حضرت على (ع) کى جانشينى کى دلالت کرتے ہيں اور سر انجام ايسے جملات بيان کرنا جو پيغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے اہل بيت (ع) کے درميان گہرے پيوند کى دلالت پيش کرتے ہيں، اہل بيت (ع) کى امامت، ولايت اور عصمت کى واضح دليل ہے-
اہل بيت (ع) کى عصمت کو ثابت کرنے کے لئے، بہت سى اعتقادى و کلامى کتابوں ميں حديث کے اس جملہ سے استفادہ کيا گيا ہے کہ: " واذہب عنہم الرجس وطہر ہم تطہيرا" – اس لحاظ سے اس حديث ميں دو اہم نکتے پائے جاتے ہيں، اور وہ امامت و عصمت ہيں-
تفصیلی جواب :
حديث کساء کے بارے ميں اجمالى طور پر کثرت سے روايتيں نقل کى گئى ہيں [1] اور ان سب سے يہ استفادہ کيا جاسکتا ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے على، فاطمہ، حسن و حسين (ع) کو بلايا اور يا وہ آپ (ص) کى خدمت ميں حاضر ہوئے، پيغبر اکرم (ص) نے ان کے اوپر عبا ڈال دى اور فرمايا:
"خداوندا! يہ ميرے اہل بيت (ع) ہيں، ان سے ہر قسم کى برائى اور آلودگى کو دور رکهنا، اس وقت آيہ شريفہ:" انما يريد اللہ ليذہب عنکم الرجس" نازل ہوئى-
اہل سنت کے مشہور دانشور، حاکم حسکانى، نيشابورى نے اپنى کتاب "شواھد التنزيل" [2] ميں اور اسى طرح سيد ابن طاووسى [3] نے ان روايتوں کو متعدد طريقوں اور مختلف راويوں سے جمع کيا ہے­
ليکن ہمارے مد نظر جو حديث ہے، وہ حديث کساء ہے، جو شيخ عباس قمى کى مفاتيح الجنان ميں درج ہے­
اس حديث ميں معنى کے لحاظ سے دو نکتے قابل توجہ اور اہميت کے حامل ہيں:
1­ امامت و ولايت کا ثابت ہونا:
حديث کساء، پہلے مرحلہ ميں اہل بيت (ع) کى امامت و ولايت کى طرف اشارہ کرتى ہے اور اس مقام کو اہل بيت (ع) سے مخصوص قرار ديتى ہے­
الف اہل بيت (ع) کى امامت کا مقام: حضرت رسول خدا (ص) نے مختلف مواقع پر اور مناسب اوقات ميں امام على (ع) کى جانشينى کے بارے ميں اپنا نقطہ نظر بيان فرمايا ہے­ حديث کساء ان مواقع ميں سے ايک ہے­ آنحضرت (ص) نے اس حديث کے ايک حصہ ميں امام على (ع) کو اپنے بھائى، وصى، خليفہ اور پرچمدار کے طور پر پہچنوايا ہے­ [4] اور اہل بيت (ع) کے مقام اور آپ (ص) کے پاس ان کى اہميت کى طرف اشارہ فرمايا ہے، تاکہ آپ (ص) کى وفات کے بعد ان کا احترام محفوظ رہے، اس لئے اپنے اہل بيت (ع) کو جمع کرنے کے بعد ان کو کساء کے نيچے قرار ديکر فرمايا: "يہ ميرے اہل بيت (ع) اور خاص و قرابتدار ہيں، ان کا گوشت ميرا گوشت ہے، ان کا خون ميرا خون ہے، جو انھيں تکليف پہنچائے اس نے مجھے تکليف پہنچائى ہے، جو انھيں غمگين کرے اس نے مجھے غمگين کيا ہے­ جو ان سے جنگ کرے، اس نے مجھ سے جنگ کى ہے­ وہ مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں، پس اپنے درود، برکتيں اور مہرومحبت ميرے لئے اور ان کے لئے بھيجدينا، اور جو ان کےساتھ صلح کرے اس نے ميرے ساتھ صلح کى ہے جو ان سے دشمنى کرے، اس نے ميرے ساتھ دشمنى کى ہے اور جو ان سے دوستى کرے ان کا ميں بھى دوست ہوں­
ب مقام امامت کا منحصر ہونا: امام حسن، امام حسين، امام على اور حضرت فاطمہ زہرا (ع) جب رسول خدا (ص) کى خدمت ميں پہنچے، تو آنحضرت (ص) نے ايک يمنى کساء (چادر) کو ان کے اوپر ڈال ديا اور خداوند متعال سے درخواست کى کہ انھيں برائى اور آلودگى سے دور رکھنا، تو آيہ شريفہ نازل ہوئى­ اب سوال يہ ہے کہ کيا حقيقت ميں پيغمبر (ص) کا يہ کام کسى دليل پر مبنى تھا يا کسى دليل کے بغير اور بيہودہ تھا؟ اس کے جواب ميں کہنا چاہئے کہ ممکن نہيں ہے کہ پيغمبر اسلام (ص) اس عظمت و آگاہى کے باوجود کوئى بيہودہ کام انجام ديں ­ [5] پس آنحضرت (ص) کا يہ کام ضرور کسى دليل و حکمت پر مبنى تھا کہ آيہ شريفہ "انما يريداللہ ليذھب۔۔۔۔۔۔" کے ما قبل و مابعد جملات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) کا يہ مقصد تھا کہ اہل بيت (ع) کو دوسروں سے جدا کرکے مشخص طور پر پہچنوايئں اور يہ فرمايئں کہ: آيہ شريفہ " انما يريداللہ۔۔۔۔" صرف اسى گروہ سے متعلق ہے، اور ايسا نہ ہو کہ کوئى شخص پيغمبر اکرم (ص) کے اہل بيت (ع) ميں آنحضرت (ص) کے سارے گھرانہ کے افراد کو شامل کرے، يعنى اگر پيغمبر اکرم (ص) اپنے اہل بيت (ع) کو الگ کرنے اور امتياز بخشنے کے لئے يہ کام انجام نہ ديتے، تو ممکن تھا کہ اس آيہ شريفہ سے آنحضرت (ص) کى تمام بيوياں اور خاندان والے استفادہ کرتے اور خود کو اس آيہ شريفہ کے مضمون کے مصداق قرار ديتے ­ لہذا بعض روايتوں ميں آيا ہے کہ پيغمبر اسلام (ص) نے تين بار اس جملہ کو دہرايا ہے: "خداوندا! ميرے اہل بيت يہ ہيں ان سے ہر برائى کو دور رکھنا" ­[6]
اہل سنت کى کتابوں ميں بھى آيا ہے کہ آنحضرت (ص) چاليس دن تک فجر کى نماز سے پہلے، على اور فاطمہ (ع) کے گھر کے دروازہ کو کھٹکھٹا تے ہوئے فرماتے تھے: " اسلام عليکم اھل البيت ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، الصالاۃ رحمکم اللہ" انما يريد اللہ ليذھب عنکم الرجس اھل البيت ويطھرکم تطھيرا" [7] اور [8] (بس اللہ کا ارادہ يہ ہے اے اہلبيت کہ تم سے ہر برائى کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکيزہ رکھے جو پاک و پاکيزہ رکھنے کا حق ہے)
2­ عصمت کا ثابت ہونا:
جس دوسرے اہم نکتہ کى طرف اس حديث ميں اشارہ کيا گيا ہے، وہ اہل بيت (ع) کى عصمت اور اس کے ضمن ميں تمام ائمہ معصومين (ع) کى عصمت اور ان کا ہر برائى سے محفوظ ہونا ہے­ چونکہ يہ حديث آيہ شريفہ " انما يرد اللہ ليذھب عنکم الرجس" کى شان نزول ہے، اس لئے جس طرح يہ آيہ شريفہ اہل بيت (ع) کى عصمت کى دلالت پيش کرتى ہے، اسى طرح حديث کساء بھى يہى کام انجام ديتى ہے­
مذکورہ آيہ شريفہ کے بارے ميں بعض مفسرين نے "رجس" کو صرف "زنا" و "شرک" جيسے، گناہان کبيرہ، جان کر اس کى طرف اشارہ کيا ہے، جبکہ اس محدوديت کے بارے ميں کوئى دليل نہيں پائى جاتى ہے، بلکہ " الرجس" کا اطلاق ( اس کے الف و لام کے الف و لام جنسى ہونے کے پيش نظر ) ہر قسم کى برائى اور گناہ پر مشتمل ہے، کيونکہ سب گناہ برائى ہيں، اس لئے قرآن مجيد ميں يہ لفظ، "شرک"، شراب، "جوا" "نفاق"، حرام اور ناپاک گوشت کے مانند گناہوں اور برايئوں کے لئے استعمال ہوا ہے ­ [9]
دوسرى جانب سے، چونکہ ارادہ الہى ناقابل تغيير ہوتا ہے، اور جملہ: "انما يريد اللہ ليذھب عنکم الرجس" اس کے قطعى ارادہ کى دليل ہے، خاص کر لفظ " انما" کے پيش نظر، کہ حصر و تاکيد کے لئے استعمال ہوا ہے، اس لئے واضح ہوتا ہے کہ خداوند متعال کا قطعى ارادہ يہ ہے کہ اہل بيت (ع) ہر قسم کى برائى اور آلودگى سے پاک ہوں، اور يہى مقام عصمت ہے­
يہ نکتہ بھى قابل غور ہے کہ اس آيہ شريفہ ميں ارادہ الہى سے مراد حلال و حرام کے بارے ميں خداوند متعال کے احکام و دستورات (ارادہ تشريع) نہيں ہيں، کيونکہ يہ احکام سبوں پر شامل ہوتے ہيں اور يہ صرف اہل بيت (ع) سے مخصوص نہيں ہيں، اس بنا پر لفظ " انما" کے مفہوم کے ساتھ سازگار نہيں ہے­
پس يہ مستمرارادہ ايک قسم کى امداد الہى کى طرف اشارہ ہے کہ جو اہل بيت (ع) کى عصمت کو جارى رہنے ميں مدد کرتا ہے اور اس کے ساتھ يہ عصمت ان کے ارادہ و اختيار کى آزادي سے منافات نہيں رکھتى ہے­
حقيقت ميں آيہ شريفہ کا مفہوم وہى ہے ، جو زيارت جامعہ ميں بھى آيا ہے کہ : "خداوند متعال نے آپ کو لغزشوں اورخطاوں سے محفوظ رکھا ہے اور گمراہيوں کے فتنہ سے بچايا ہے، اور آلودگيوں سے پاک رکھا ہے اور برايئوں کو آپ سے دور رکھا ہے اور مکمل طور پر آپ کو پاک و پاکيزہ کيا ہے [10] اس وضاحت کے پيش نظر مذکورہ آيہ شريفہ کے اہل بيت (ع) کى عصمت کے مقام کے لئے دليل ہونے ميں کسى قسم کا شک و شبہہ نہيں کرنا چاہئے ­ [11]
مذکورہ بيان کے پيش نظر اہل بيت (ع) کى ولايت و عصمت کو ثابت کرنے ميں حديث کساء کى اہميت واضح ہوتى ہے­

[1] حلى، حسن بن يوسف، نهج‏الحق و كشف الصدق، ص 228 و 229، مؤسسه دار الهجرة قم، 1407 هـ ، "مسند أحمد بن حنبل" ميں متعدد طريقوں سے اور "الجمع بين الصحاح الستة" ميں امہ سلمہ سے نقل کيا گيا ہے کہ انھوں نے فرمايا: فاطمہ پيغمبر (ص) کى خدمت ميں حاضر ہويئں، آنحضرت (ص) نے فرمايا: اپنے شوہر اور دونوں بيٹوں کو کہنا کہ وہ بھى آيئں، سب کسائے خيبرى کے نيچے تھے کہ آيہ شريفہ نازل ہوئى؛ . "إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً" آنحضرت (ص) نے کساء کے کناروں کو پکڑ کر آسمان کى طرف اشارہ کيا اور کہا: ھولاء اھل بيتى، ام سلمہ کہتى ہيں: ميں نے اپنے سر کو کساء کے نيچے ڈال کر عرض کى کيا ميں بھى اہل بيت ميں سے ہوں؟ آنحضرت (ص) نے فرمايا: تم اچھى ہو (ليکن اہل بيت ميں داخل نہيں ہو) يہى معنى صحيح ابى داود، مالک کى موطا اور صحيح مسلم سے بھى مختلف طريقوں سے معلوم ہوتے ہيں
[2] حسكانى، حاكم، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، ج2، ص17، تهران، 1411ء، نشر موسسه طبع ونشر
[3] سيد ابن طاووس، الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، جلد1، ص124، نشر خيام، 1400 ھ
[4] قالَ لَهُ وَعَلَيْكَ السَّلامُ يا اَخى يا وَصِيّى وَخَليفَتى وَصاحِبَ لِواَّئى
[5] نجم، 3 و 4، وہ اپنى خواہش سے کلام بھى نہيں کرتا ہے اس کا کلام وہى وحى ہے جو مسلسل نازل ہوتى رہتى ہے.
[6] اللهم هؤلاء أهل بيتي و خاصتى فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهير. شيخ صدوق، أمالي الصدوق، نشر اعلمى، چاپ بيروت، 1400 ھ
[7] احزاب، 33.
[8] المعجم الاوسط للطبرانی، ج 17، ص 438، ح 8360.
[9] حج، 30. مائده، 90. توبه، 125. انعام، 145.
[10] عصمكم اللَّه من الذلل و آمنكم من الفتن، و طهركم من الدنس، و اذهب عنكم الرجس، و طهركم تطهيرا
[11] مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج ‏17، ص 298، دار الكتب الإسلامية، تهران، چاپ اول، 1374 ش


چھاپیے   ای میل

Comments (0)

There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Attachments (0 / 3)
Share Your Location