روايت "قيمۃ کل امرء ما يحسنہ" سے مراد کيا ہے؟

سوال 
روايت "قيمۃ کل امرء ما يحسنہ" سے مراد کيا ہے؟


جواب
اميرالمومنين حضرت علي بن ابيطالب (ع) کے کلام کي تشريح کرنے والوں نے"قيمۃ کل امرء ما يحسنہ"[۱] ہر مرد کي قدر و قيمت وہي ہے جسے وہ نيک جانے" کي يوں تشريح کي ہے کہ:"ہر شخص کي لوگوں ميں قدر وقيمت اور احترام اس کے علم و دانش سے ہے-"
يحسن، احسن شے سے ہے، اور يہ تب ہے جب اسے سمجھ ليا جائے، يعني ہر شخص کي لوگوں ميں عزت اور اس کا احترام اس کے علم و دانش سے ہے، پس اگر آپ چاہتے ہيں کہ آپ کي قدر کي جائے تو اپنے علم ميں اضافہ کرنا کيونکہ قدر وقيمت کا بڑھنا يا گھٹنا علم کے بڑھنے اور گھٹنے پر منحصر ہے-
سيد رضي نے کہا ہے:يہ کلام (ہر مرد کي قدر و قيمت وہي ہے جسے وہ اچھي طرح جانتا ھو) ايک ايسا کلام ہے کہ اس کي قيمت معين نہيں کي جاسکتي ہے اور کوئي فلسفي اس کے مساوي نہيں ہے اور کوئي کلام اس کے برابر نہيں ہے-
ابن ابي الحديد، شرح نہج البلاغہ ميں کہتے ہيں: ہم نے اس سے پہلے علم کي فضيلت ميں کافي بيان کيا ہے اور اب کچھ نئے نکتے بيان کرتے ہيں-
کہا جاتا ہے: کہ اردشير بابکان نے اپنے خط ميں شاہزادوں کے لئے جو باتيں لکھي ہيں ان ميں سےيہ بھي تھيں کہ:تمھارے لئے علم کي فضيلت کے بارے ميں بہترين دليل يہ ہے کہ ہر زبان نے اس کي تعريف کي ہے اور جو لوگ علم نہيں جانتے ہيں وہ بھي عالم ھونے کا دعوي کرتے ہيں اور اپنے آپ کو عالم نما بناتے ہيں اور جہالت کے عيب کي آپ کے لئے بہترين دليل يہ کافي ہے کہ ہر شخص اس کو اپنے سے دور کرتا ہے اور اگر اسے جاہل کہيں تو غضبناک ھوتا ہے- انو شيروان سے کہا گيا : تم جو کچھ علم سے سيکھتے ھو پھر بھي اسے سيکھنے کي کيوں کوشش کرتے ھو؟ اس نے جواب ميں کہا: اس لئے کہ جو کچھ اس سے سيکھتا ھوں وہ ميري عظمت اور رتبہ ميں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے اس سے پوچھا گيا کہ تم کيوں ہر شخص سے سيکھنے ميں پرہيز نہيں کرتے ھو؟ اس نے جواب ميں کہا: کيونکہ ميں جانتا ھوں کہ علم جہاں سے بھي سيکھا جائے سود مند ہے-
بزرگ مہر سے کہا گيا کہ: علم بہتر ہے يا مال؟ جواب ميں کہا: علم، پوچھا گيا: کيا وجہ ہے کہ ہم اکثر اہل علم کو دولتمندوں کے دروازوں پر ديکھتے ہيں بجائے اس کے کہ دولتمندوں کو عالموں کے دروازوں پر ديکھيں؟ جواب ميں کہا کہ: يہ بھي علم و جہالت کي وجہ سے ہے، کيونکہ عالم مال کي ضرورت سے آگاہ ہيں اور دولتمند علم کي ضرورت سے آگاہ نہيں ہيں-
شاعر نے کہا ہے کہ: سيکھو کہ انسان عالم پيدا نہيں کيا گيا ہے علم و دانش لاعلمي سے قابل موازنہ نہيں ہے، اگر قوم کا سر پرست اور رئيس علم نہ رکھتا ھو تو جب وہ انجمنوں ميں حاضر ھو جائے گا تو چھوٹا اور بچے کے مانند ھوگا-"اوصيکم بخمس لو ضربتم اليها آباط الابل لکانت لذلک اهلا: لا يرجون احد منکم الاربه، و لا يخافن الاذنبه، و لا يستحين احد منکم اذا سئل عمّا لا يعلم ان يقول: لا اعلم، و لا يستحين احد اذا لم يعلم الشى‏ء ان يتعلّمه، و عليکم بالصّبر، فان الصّبر من الايمان کالرأس من الجسد و لا خير فى جسد لا رأس معه، و لا خير فى ايمان لا صبر معه"؛[٢]
ميں تم کو پانچ چيزوں کي تاکيد کرتا ھوں ، اگر کوئي ان کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اونٹوں کو دوڑا دے، تو مستحق ہے، کہ تم ميں سے کوئي اپنے پروردگار کے علاوہ کسي سے اميد نہ رکھے، اپنے گناھوں کے علاوہ کسي سے نہ ڈرے، اگر تم ميں سے کسي سے اس چيز کے بارے ميں سوال کيا جائے جو تم نہيں جانتے ھو تو يہ کہنے ميں شرم نہ کرے کہ ميں نہيں جانتا ھوں، اگر تم ميں سے کوئي کسي چيز کو نہ جانتا ھو تو اسے سيکھنے ميں شرم نہ کرے، تم کو صبر کي فہمائش کرتا ھوں کہ صبر بدن کے لئے سر کے مانند ہے اور سر کے بغير بدن کي کوئي قدر وقيمت نہيں ہے اور اس ايمان کي بھي کوئي قدر و منزلت نہيں ہے جس ميں صبر و شکيبائي نہ ھو-
کہا گيا ہے کہ جب تک ايک انسان نادان ہے قابل مذمت ہے اور سيکھنا قابل ستائش ہے، اسي طرح جب تک انسان زندہ ہے ناداني اس کے لئے قابل مذمت ہے اور علم حاصل کرنا اور سيکھنا اس کے لئے قابل ستائش ہے-[۳]

منابع اور مآخذ:
[۱] نهج البلاغه، حکمت ۸۱.
[٢] ايضا، ۸٢.
[۳] مهدوي دامغاني، محمود، جلوه ‏تاريخ ‏در شرح ‏نهج ‏البلاغه ‏ابن‏ ابى‏ الحديد، ج ۷، ص ٢۹۷- ٢۹۸، نشر ني، تهران، طبع دوم، ۱۳۷۵.


چھاپیے   ای میل

Comments (0)

There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Attachments (0 / 3)
Share Your Location