شیعت کی پیدائش یا بالفاظ دیگر شیعوں کے اہلسنت سے جدا ہونے کے عوامل کو درج ذیل امور میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے: اول: اہلبیت علیہم السلام کی امامت اور ولایت پر کثرت سے آیات کاموجود ہونا۔ دوم: اہلبیت علیہم السلام کے فضائل اور مناقب پر آیات کا دلالت کرنا۔ سوم: اہلبیت علیہم السلام کی دینی مرجعیت پر بہت ساری آیات کا پایا جانا۔ چہارم: اہلبیت علیہم السلام کی امامت اور ولایت پر کثرت سے روایات کا موجود ہونا۔ پنجم: اہلبیت علیہم السلام کے فضائل اور مناقب پر بہت ساری روایات کا دلالت کرنا۔ ششم: اہلبیت علیہم السلام کے شیعوں اور پیروکاروں کی مدح میں بہت ساری روایات کا پایا جانا۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ یہاں پر مختصر طور پر مذکورہ عوامل میں سے ہر ایک کے بارے میں چند شواہد پیش کریں: پہلا امر: آیات امامت( اہلبیت علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرنے والی آیات) قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے کے بعد بہت ساری ایسی آیتیں نظر آتی ہیں جو اہلبیت علیہم السلام کی ولایت اور امامت، اور بعد رسول امت کی رہبری پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک کی طرف یہاں پر اشارہ کرتے ہیں: ۱: آیت ولایت خداوند عالم کا اشاد گرامی ہے: : " إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ ‘‘(مائده(5) آيه 55) بیشک تمہارا ولی اللہ اور اس کا رسول ہے اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات ادا کرتے ہیں‘‘۔ اس آیہ کریمہ کی شان نزول جیسا کہ تاریخی، تفسیری اور روائی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے: ایک دن ایک فقیر نے مسجد میں مدد طلب کی، رسول اسلام کی امامت میں نماز قائم تھی سب کے ساتھ علی علیہ السلام بھی حالت رکوع میں تھے سائل نے مدد کا سوال کیا حضرت علی علیہ السلام نے حالت رکوع میں ہی اسے اپنی انگوٹھی کو صدقہ دے دیا ادھر نماز تمام ہوئی جبرئیل یہ آیت لے کر پیغمبر اسلام پر نازل ہوئے۔ اس حدیث کے مضمون کو صحابہ کرام میں سے دس لوگوں نے اور علماء اہلسنت میں سے پچاس لوگوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے منجلہ: طبرانی(معجم الاوسط، ج 7، ص 10، ح 6228.)، ابوبکر جصاص(احكام القرآن، ج 2، ص 446.)، واحدی(اسباب النزول، ص 133.)، زمخشری(الكشاف، ج 1، ص 649.)، وغیرہ۔ ۲:آیت انذار خداوند عالم فرماتا ہے:’’ إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْم هاد ‘‘(رعد(13) آيه 7.) بتحقیق آپ ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے۔ اکثر علماء اہلسنت نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور علی ہادی اور رہبر ہیں اور اے علی تمہارے ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گےـ‘‘(جامع البيان، ذيل آيه.) اس حدیث کے مضمون کو صحابہ میں سے نو آدمیوں اور علماء اہلسنت میں سے چار لوگوں نے نقل کیا ہے۔ ٣: آیت تبلیغ: خدا وند عالم سورہ مائدہ کی ٦٧ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے: یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس۔ اے رسول آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔(ترجمہ علامہ جوادی) ابن عساکر صحیح سند کے ساتھ ابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیر خم کے دن رسول خدا(ص) پر امام علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(ترجمہ امام علی، ابن عساکر،ج٢ ص٨٦) اس حدیث کو آٹھ صحابہ نے اور علماء اہلسنت میں سے چار افراد نے نقل کیا ہے۔ ٤: آیت اکمال خدا وندعالم سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں فرماتا ہے:الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا'' آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور اپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر تمام کر دیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا۔ خطیب بغدادی ابو ہریرہ سے صحیح سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اٹھارہ ذی الحجہ کو (یعنی غدیر خم کے دن) روزہ رکھے خدا وند عالم ساٹھ مہینوں کے روزوں کا اس کو ثواب عنایت کرے گا۔ اس لیے کہ غدیر خم کا دن وہ دن ہے جس دن رسول خدا (ص)نے علی (ع) کا ہاتھ پکڑا اور لوگوں سے فرمایا: کیا میں تمہارا مولانہیں ہوں ؟ سب نے کہا: آپ ہمارے مولاہیں یا رسول اللہ۔ اس وقت فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ اس کے بعد عمر بن خطاب نے دوبار علی (ع) کو مبارک باد دی اور کہا: اے ابی طالب کے بیٹے آپ میرے اور تمام مومنین کے مولا ہو گیٔے۔ اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی۔(تاریخ بغداد،ج٨،ص٢٩٠) اس حدیث کو اہلسنت کے پندرہ علماء سے زیادہ نے نقل کیا ہے
امر دوم: فضایٔل اہلبیت کو بیان کرنے والی آیات ذیل میں بعض آیات کی طرف اشارہ کیا جاتاہے: ١: سورہ دھر خدا وندعالم فرماتا ہے: ' ' ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزائً و لا شکورا'' (سورہ دھر، آیات ٨،٩) یہ اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں، ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہیے اور نہ شکریہ۔ اہلسنت کے علماء میں سے چھتیس افراد نے یہ صراحت سے بیان کیا ہے کہ یہ آیت اہلبیت رسول (ۖ) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ فخر رازی نے التفسیر الکبیر میںاسی آیت کے ذیل میں ،قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل میں، سیوطی نے الدرالمنثور میں ، ابوالفداء نے اپنی تاریخ میں اور خطیب بغدادی نے بھی اپنی تاریخ میں اس بات کو نقل کیا ہے۔( تاریخ ابی الفدائ،ج ١،ص ١٢٦،تاریخ بغدادی، ج ١،ص ١٩١) ٢: آیت شراء سورہ بقرہ کی ٧٠٢ ویں آیت میں ارشاد ہوا: و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ و اللہ رؤف بالعباد۔ ابن عباس کہتے ہیں: یہ آیت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی جب رسول خدا (ص) مشرکین کے محاصرے سے نکلے اور ابو بکر کے ساتھ ایک غار میں پناہ لی ۔ علی (ع) کو مکہ میں اپنے بستر پر سلا دیا۔(مستدرک حاکم، ج٣، ص٤)۔ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: تمام مفسرین نے روایت کی ہے کہ مذکورہ آیت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ وہ بھی اس رات جب آپ رسول خدا (ص) کے بستر پر سوئے تاکہ رسول کی جان محفوظ رہے۔ ( شرح ابن ابی الحدید ج ٣١، ص٢٦٢)۔ علماء اہلسنت کے چودہ افراد نے اس آیت کے حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہونے پر تاکید کی ہے جن میں سے بعض، زینی دحلان، فخر رازی، ابن اثیر، دیار بکری ہیں۔ تیرہ افراد نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ آیت شب ہجرت میں پیغمبر (ص) پر نازل ہوئی۔ جن میں سے بعض یہ ہیں: احمد بن حنبل، طبری، ابن سعد ، ابن ہشام، ابن اثیر، ابن کثیر وغیرہ۔ ۳: آیت مباہلہ خداوند متعال فرماتا ہے: فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكاذِبينَ " (آل عمران(3)، 61.) ’’ پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں اس سے کہہ دیجیے کہ آو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔‘‘ مفسرین کا اجماع اس بات پر کہ اس آیت میں ’’انفسنا‘‘ سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں کہ جو نفس پیغمبر ہیں۔ احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے علی، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلوایا اس کے بعد بارگاہ رب العزت میں عرض کیا: خدایا یہ میرے اہلبیت ہیں۔ (مسند احمد، ج 1، ص 185.) اصحاب اور تابعین میں سے چوبیس افراد نے اس حدیث کے مضمون کو نقل کیا ہے۔ اور اس آیت کو اہلبیت کی شان میں جانتے ہیں اور تیسری صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک پچاس سے زیادہ علماء اہلسنت نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔ ۴: آیت مودّت ارشاد خدا وندی ہے: : " قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‘‘ (شورى(42) آيه 23.) اے حبیب کہہ دیجیے میں تم لوگوں سے سوائے اپنے اہلبیت کی محبت کے کچھ نہیں مانگتا‘‘۔ اکثر اہلسنت نے روایت کی ہے کہ مذکورہ آیت کے نزول کے بعد یہ سوال کیا کہ : یا رسول اللہ آپ کے قربتدار جن کی محبت کو ہم واجب کیا ہے کون ہیں؟ فرمایا: علی، فاطمہ، حسن و حسین۔ اس مضمون کو صحابہ اور تابعین میں سے چوبیس آدمیوں نے، علماء اہلسنت میں سے ساٹھ افراد نے نقل کیا ہے۔ جن میں بعض یہ ہیں: سیوطی (درالمنثور، ج 6، ص 7.) ، طبری (جامع البيان، ج 25، ص 14 و 15 و مسند احمد، ج 1، ص 199.)، احمد بن جنبل وغیرہ تیسرا امر: اہلبیت علیہم السلام کی دینی مرجعیت کے بارے میں آیات بعض آیتیں جو اہلبیت علیہم السلام کی دینی مرجعیت اور ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں یہ ہیں: ۱: آیت تطہیر خداوند عالم کا ارشاد ہے: إِنَّما يُريدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرًا۔ بتحقیق اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ تم اہلبیت سے رجس کو دور رکھے اور تمہیں پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آیت اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس شان نزول کو صحابہ کے تیرہ لوگوں اور علماء اہلسنت کے دسیوں افراد نے نقل کیا ہے۔ ترمذی نے اپنی صحیح کے اندر عمر بن ابی سلمہ سے نقل کیا ہے: جب آیت تطہیر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل ہوئی تو آپ ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے۔ آپ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسن علیہم السلام کو بلایا اور ایک کساء کو سب پر اڑھا کر فرمایا: خدایا یہ ہیں میرے اہلبیت۔ ہر طرح کے رجس کو ان سے دور کر دے اور انہیں پاک و پاکیزہ بنا دے۔( صحيح ترمذى، ج 5، ص 327.) ۲: آیت اولی الامر خداوند عالم فرماتے ہیں: أَطيعُوا اللّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي اْلأَمْرِ مِنْكُمْ " اللہ اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ اولی الامر سے مراد وہ معصومین ہیں جن کی اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے واجب ہے جس طرح سے خدا اور رسول کی اطاعت بغیر قیدو شرط کے واجب ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ چہاردہ معصومین کے علاوہ کسی کی عصمت کا دعوی بھی نہیں ہوا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو شخص میری اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو میری نافرمانی کرے اس نے خدا کی نافرمانی کی، اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔( ترجمه امام على(عليه السلام)، ابن عساكر، ج 1، ص 364.) چوتھا امر امامت اور ولایت کے اثبات پر حدیثیں مذہب تشیع کے عالم وجود میں ظہور پانے کے عوامل اور اسباب میں سے ایک عامل اور سبب وہ روایات ہیں جو اہلبیت رسول (ص)خصوصا علی علیہ السلام کی امامت اور ولایت پر دلالت کرتی ہیں، جیسے: ١: حدیث غدیر پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر میں فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ جس کا میں مولا ہوں ا س کے علی بھی مولا ہیں۔ (مسند احمد ،ج٦، ص١٠٤، ح ٦٠٥٨١) ٢: حدیث دوازدہ خلفائ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یکون بعدی اثنا عشر امیرا کلھم من قریش۔ میرے بعد بارہ خلیفہ اور امیر ہوں گے جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔ ( صحیح بخاری، باب الاستغلاف) ٣: حدیث ولایت پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی (ع)کو مخاطب کر کے فرمایا: انت ولی کل مومن بعدی ۔ آپ میرے بعد ہر مومن کے ولی اور سرپرست ہیں۔(المعجم الکبیر، ج ٢١، ص ٢٧) ٤: حدیث وصایت پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ان لکل نبی وصیا و وارثا و ان علیا و صیی و وارثی۔ بتحقیق ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہوتا ہے اور میراو صی اور وارث علی ہے (تاریخ دمشق، ج ٢٤، ص٢٩٣) ٥: حدیث منزلت:
پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا: انت منی بمنزل ھارون من موسی الا انہ لا بنی بعدی ۔ آپ میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہیں جو ہارون موسی کے نزدیک رکھتے تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔( صحیح ترمذی، ج٥، ص١٤٦،ح ٠٣٧٣) ٦: حدیث خلافت پیغمبر اکرم (ص)نے امیر المومنین (ع)کو مخاطب کر کے فرمایا: انت اخی و وصیی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ و اطیعوہ۔ اے علی آپ میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ہیں اس قوم کے درمیان، پس (اے لوگو) ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ (کامل ابن اثیر، بعثت کے تیسرے سال کے واقعات)
پانچواں امر فضائل کی حدیثیں ذیل میں بعض فضائل کی حدیثوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ١: حدیث نور: پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا: کنت انا و علی ابن ابی طالب نورا بین یدی اللہ قبل ان یخلق آدم باربع آلاف عام۔ فلما خلق آدم قسم ذلک النور جزئین ، فجز انا و جز علی۔ میں اور علی ایک نور تھے خدا کے پاس آدم کو خلق کرنے کے چار ہزار سال پہلے، آدم کی خلقت کے بعد خدا نے اس نور کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ میں ہوں اور دوسرا حصہ علی۔ (تذکر الخواص، ص٦٠٤) اس حدیث کو آٹھ لوگوں نے اصحاب میں سے ، آٹھ لوگوں نے تابعین میں سے اور چالیس افراد سے زیادہ اہل سنت کے علما نے نقل کیا ہے۔ ٢: حدیث '' احب الخلق'' امام علی (ع)وہ شخص ہیں جو نص نبوی کے مطابق '' احب الخلق الی اللہ '' ہیں۔ ترمذی صحیح السند کے ساتھ انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں: پیغمبر اکرم(ص)کی خدمت میں بھنا ہوا مرغا لایا گیا آپ نے فرمایا: خدایا! اپنی محبوب ترین مخلوق کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس خوراک میں میرے ساتھ شریک ہو سکے۔ اسی اثنا میں حضرت علی (ع) داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گئے۔ (صحیح ترمذی، ج ٥،ص ٥٩٥)
چھٹا امر اہلبیت علیہم السلام کی دینی رہبریت کے بارے میں بہت ساری روایات کا پایا جانا۔ روایات سے بھی اہلبیت علیہم السلام کی دینی مرجعیت اور رہبریت کے بارے میں استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ۱: حدیث ثقلین ترمذی جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں: حجۃ الوداع بروز عرفہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو دیکھا کہ آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے اور خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا: اے لوگو ! میں تمہارے درمیان دو گراں قیمت چیزیں ؛کتاب خدا اور اہلبیت چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ۔[1] اس حدیث کے مضمون کو چونتیس اصحاب نے نقل کیا ہے اور علماء اہلسنت میں سے ۲۶۶ افراد نے اپنے کتابوں میں اشارہ کیا ہے۔ ۲: حدیث" انا مدینۃ العلم" حاکم نیشاپوری مکمل سند کے ساتھ جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں جو شخص شہر علم میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ دروازہ سے داخل ہو۔[2] اس حدیث کے مضمون کو صحابہ میں سے دس افراد نے تابعین میں سے پندرہ افراد اور علماء اہلسنت میں سے دس افراد نے نقل کیا ہے۔ ۳: حدیث سفینہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح کی ہے جو اس سے رو گردانی کرے گا غرق ہو جائے گا۔[3] اس حدیث کو صحابہ میں سے ۸ لوگوں، تابعین میں سے ۷ اور علماء اہلسنت میں سے ایک سو پچاس افراد نے نقل کیا ہے۔ ۴: حدیث امان حاکم نیشاپوری ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ستارے اہل زمین کے لیے غرق ہونے سے امان ہیں اور میرے اہلبیت میری امت کے لیے اختلاف سے امان ہیں اگر عرب کا کوئی قبیلہ میرے اہلبیت کی مخالفت کرے تو وہ خود پاش پاش ہو جائے گا اور گروہ شیطان میں شمار ہو گا۔[4] اس حدیث کو علماء اہلسنت کے کافی گروہوں نے نقل کیا ہے۔ ۵: حدیث: علی مع الحق رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: خدا رحمت کرے علی پر، خدایا جدھ۹ر علی جائیں حق کو ادھر موڑ دے۔[5] حاکم نیشاپوری ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے ۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔ [6] اس حدیث کو صحابہ میں سے تئیس افراد اور علماء اہلسنت میں سے دس لوگوں نے نقل کیا ہے ۔ وہ آیات اور روایات جو اہلبیت علیہم السلام کی شان میں ذکر ہوئی ہیں نہ صرف ان ذوات مقدسہ کے لیے فضیلت شمار ہوتی ہیں بلکہ دوسروں پر ان کی افضلیت اور برتری کو ثابت کرتی ہیں اوراہلسنت جیسے ابن تیمیر کی نص کے مطابق امامت اس کا حق ہے جو امت میں سب سے زیادہ فضیلتوں کا مالک اور افضل ہے۔ ساتواں امر مدح شیعت میں کثرت سے روایات کا موجود ہونا۔ اہلسنت کی حدیثی کتابوں میں بہت ساری ایسی روایات پائی جاتی ہیں جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کی شیعیان علی کے عنوان سے مدح و ستائش کی ہے ۔ بعض روایات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں: جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور میں تھے کہ علی علیہ السلام وارد ہوئے پیغمبر اکرم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ علی اور ان کے شیعہ وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن کامیاب اور سعادتمندہوں گے۔[7] امام علی علیہ السلام نے فرمایا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے مجھ سے فرمایا: تم اور تمہارے شیعہ جنت میں ہوں گے۔[8] اس مضمون کو علماء اہلسنت میں سے ۳۴ افراد نے نقل کیا ہے کہ جن میں سےبعض یہ ہیں: ابن عساكر، ابن حجر، ابن اثير، طبرانى، هيثمى، حاكم نيشابورى، سيوطى، ابن حجر، بلاذرى، طبرى، خطيب بغدادى، علامه مناوى، متقى هندى، آلوسى و شوكانى.
[1] صحيح ترمذى، ج 5، ص 621. [2] مستدرك حاكم، ج 3، ص 136. [3] نهاية ابن اثير، ماده زخّ. [4] مستدرك حاكم، ج 3، ص 149. [5] همان، ص 135 و صحيح ترمذى، ج 5، ص 592. [6] مستدرك حاكم، ج 3، ص 34. [7] در المنثور، ج 6، ص 589. [8] ترجمة الامام على بن ابى طالب، ابن عساكر، ج 2، ص 345، رقم 845.