بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔
لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔
البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟!
بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟!
اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔
اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔
فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ: ۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہ ہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی،یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ”کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا“!
ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟!
اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔ ۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ”ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“ انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔
جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔
لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔
۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔
فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔
جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔
تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔
۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہواو ہوس پوری کرنے کے آلہٴ کار میں بدل جائے گی!۔
ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟!
واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حجاب کے مخالفین کے اعتراضات
(قارئین کرام!) ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:
۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔
لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ: اولاً : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔